برقعہ پہننا کتنا ضروری ہے

 سوال نمبر 2445


السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ان مسائل کے بارے میں

(١): عورت کے لئے اسلام میں برقعہ اوڑھنا کتنا ضروری ہے -اگر عورت اتنے موٹے کپڑے پہنے ہو کہ بدن کا رنگ نہ جھلکے اور اتنے ڈھیلے کہ بدن کے ابھار محسوس نہ ہو اور بدن کا وہ حصہ جس کا ڈھکنا ضروری ہو ڈھکا ہوا ہو تو اس حال میں بے برقعہ اوڑھے بغیر غیر محرم کے سامنے آ سکتی ہے یا نہیں؟

(٢): گھر میں غیر محرم رہتے ہوں یا کچھ دیر کے لئے داخل ہوں انھیں کمرے میں لے جانا پڑے تو آنگن یا برآمدے میں جو عورتیں بیٹھی ہوں یا کام کاج میں مشغول ہو انکو ہٹانا ضروری ہے یا شرعی لباس میں ہوں یا مرد نگاہیں نیچے کر کے چلے جائیں یہ کافی ہے؟

(٣): کچھ لوگ عورتوں کو گھر سے باہر لے جاتے ہیں تو برقعہ اور دستانے موزے پہنا کر نکالتے ہیں اس کی شرعی حیثیت کیا ہے۔(یعنی یہ کتنا ضروری ہے)؟

المستفتی: محمد اقبال رضوی دھونرہ بریلی شریف۔



              {بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم}

وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته 

الجواب بعون الملک الوھاب: مذہب اسلام میں عورت کی عزت و آبرو کا خیال کرتے ہوئے عورت کو ہمیشہ غیر محرم کے سامنے بحالت پردہ رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ تاکہ بدنگاہی سے محفوظ رہے۔ چنانچہ مذہب اسلام نے عورت کے پردہ کے لئے کوئی خاص کپڑا متعین نہیں کیا، البتہ کپڑا ایسا ہو جس سے عورت کے بدن کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہو، اور اتنا ڈھیلا ہو کہ اس کے جسم کی ہیئت معلوم نہ ہو، چاہے وہ برقعہ کی شکل میں ہو یا کوئی اور چادر کہ جس سے عورت کے جسم کی ہیئت معلوم نہ ہو تو وہ پردہ کے قائم مقام ہے اور اس سے پردہ ہوجائے گا۔ اور اگر ایسا باریک کپڑا یا برقعہ پہنا کہ جس میں جسم سامنے نظر آئے یا جسم کی ہیئت معلوم ہو تو اس سے پردہ نہیں ہوگا، اور وہ پردے کے قائم مقام نہیں ہوگا۔

اور برقعہ و پردہ بالکل سادہ ہو نقش و نگار والا نہ ہو کہ جس کی وجہ سے آدمی کا میلان اس کی طرف ہو۔

اور نہ ہی ایسا باریک ہو جو جاذب نظر ہونے کے سبب مردوں کی توجہ کا سبب بنیں۔

اور نہ ہی ایسا چست ہو کہ جس میں جسم کی نشیب ظاہر اور نمایاں ہو۔

اور اتنا بڑا ہو کہ پورا جسم بآسانی چھپ جائے۔

اور نہ ہی برقعہ پر کوئی خوشبو وغیرہ کوئی ایسی چیز لگی ہو جس کی وجہ سے مردوں کے فتنے کا اندیشہ ہو۔

          ”القرآن الکریم“میں ہے: يَأَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ذلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا۔

ترجمہ كنز الایمان: اے نبی اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دو کہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے اوپر ڈالے رکھیں، یہ اس سے زیادہ نزدیک ہے کہ وہ پہچانی جائیں توانہیں ستایا نہ جائے اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔(پ ۲۲، آیۃ ٥٩)۔

       ”تفسیر صراط الجنان“میں ہے: (يَاتُهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنتِك): اے نبی اپنی بیویوں اور صاحبزادیوں سے فرما دو۔ کچھ ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم ، آپ اپنی ازواج مطہرات اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادیں کہ جب انہیں کسی حاجت کے لئے گھر سے باہر نکلنا پڑے تو وہ اپنی چادروں کا ایک حصہ اپنے منہ پر ڈال کر رکھیں اور اپنے سر اور چہرے کو چھپائیں۔(ج ٨، ص ٩٤، مطبوعہ المکتبۃ المدینہ)۔

          اور بے پردگی سے منع کرتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:{وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى} ترجمۂ کنزُالعرفان :اور بے پردہ نہ رہو جیسے پہلی جاہلیت کی بے پردگی۔(پارہ ٢٢، سورۃ  الاحزاب،آیت ٣٣)۔

   اس آیت کے تحت ”تفسیر صراط الجنان“میں ہے: ایک قول یہ ہے کہ اگلی جاہلیت سے مراد اسلام سے پہلے کا زمانہ ہے،اس زمانے میں عورتیں اتراتی ہوئی نکلتی اور اپنی زینت اور محاسن کا اظہار کرتیں تھیں،تاکہ غیر مرد اِنہیں دیکھیں، اور لباس ایسے پہنتی تھیں جن سے جسم کے اعضا اچھی طرح نہ ڈھکیں۔(تفسیر صراط الجنان، ج ۸،ص ۲۱،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)۔

          ”فتاویٰ رضویہ شریف“میں ہے: بے پردہ بایں معنی کہ جن اعضاء کا چھپانا فرض ہے ان میں سے کچھ حصہ کھلا ہو جیسے سر کے بالوں کا کچھ حصہ، یا گلے، یا کلائی، یا پیٹ، یا پنڈلی، کا کوئی جز، تو اس طور پر تو عورت کو غیر محرم کے سامنے جانا مطلقا حرام ہے، خواہ وہ پیر ہو یا عالم، یا عامی جوان ہو، یا بوڑھا، اور اگر بدن موٹے اور ڈھیلے کپڑوں سے ڈھکا ہے نہ ایسے باریک کہ بدن یا بالوں کی رنگت چمکے، نہ ایسے تنگ کہ بدن کی حالت دکھائیں، اور جانا تنہائی میں نہ ہو، اور پیر جوان نہ ہو، غرض کوئی فتنہ نہ فی الحال ہو، نہ اس کا اندیشہ ہو تو علم دین، امور راہ خدا سیکھنے کے لئے جانے اور بلانے میں حرج نہیں۔(ج ۲۲، ص ۲۳۹/۲۴۰، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)۔

         ”در مختار"میں ہے: (وتمنع) المرأۃ الشابة(من کشف الوجه بین رجال) لا لأنه عورة بل (لخوف الفتنۃ)۔(ترجمہ: فتنہ کے خوف کی وجہ سے جوان عورت کا مَردوں کےسامنے چہرہ کھولنا منع ہے نہ کہ اسکا ننگاپن ہونے کی وجہ سے)۔(درمختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ ، مطلب فی ستر العورة، ج ۲، ص ۹۷، مطبوعہ المكتبة الأشرفية بديوبند)۔

         لہذا صورت مذکورہ میں جب عورت اپنے موٹے اور ڈھیلے کپڑے پہنے ہوئے ہو کہ جس میں جسم کی رنگت ظاہر نہ ہو،  اور نہ جسم کی ہیئت معلوم ہو، اور عورت کے لئے جن اعضاء کا چھپانا اور ڈھکنا ضروری ہیں وہ سب چھپے ہوئے اور ڈھکے ہوئے ہوں، تو وہ ضرورت کی بنا پر اس حالت میں غیر محرم کے سامنے جاسکتی ہے۔ والله تعالیٰ عزوجل و رسوله ﷺ أعلم بالصواب۔


(٢): کسی گھر میں محرم اور غیر محرم ایک ساتھ رہتے ہوں یا کسی کام کی وجہ سے غیر محرم گھر میں داخل ہو اور گھر کے صحن یا برآمدہ میں عورتیں بحالت شرعی پردہ بیٹھی ہوں، یا کسی کام کاج میں مشغول ہو تو بہتر ہے کہ انہیں ہٹادیا جائے لیکن ہٹانا کوئی ضروری نہیں ہے بغیر ہٹائے غیر محرم اندر آسکتا ہے، اور اگر وہ شرعی پردہ میں نہیں ہے تو انہیں ہٹانے کے بعد غیر محرم کو اندر لایا جائے۔ والله تعالیٰ عزوجل و رسوله ﷺ أعلم بالصواب۔


(٣): جو لوگ عورتوں کو گھروں سے باہر لے جاتے وقت برقعہ اور دستانے وغیرہ پہنا کر نکالتے ہیں اگر وہ برقعہ وغیرہ ایسا ہے جس میں جسم کی ہیئت و رنگت ظاہر نہ ہو اور عورت کے لیے جن اعضاء کا پردہ کرنا ضروری ہے وہ سب چھپے ہوئے ہیں تو شرعی پردہ ہے ورنہ اگر برقعہ وغیرہ اس قدر نہیں ہے تو وہ پردہ کے قائم مقام نہیں ہے۔ لیکن پردے کے لئے برقعہ یا دستانوں کا پہنانا ضروری نہیں ہے بلکہ اتنا بڑا کپڑا یا ایسی چادر کہ جس سے عورت کے مکمل اعضاء جن کا پردہ ضروری ہے چھپ جائے اس سے بھی پردہ ہوجائے گا۔


                خلیفۂ حضور تاج الشریعہ حضرت مفتی عبدالرحیم نشر فاروقی فرماتے ہیں: پردہ جسے قرآن نے جلابیب کے نام سے یاد کیا ہے "جلابیب جلباب کی جمع ہے اور جلباب اس چادر کو کہتے ہیں جو اتنی بڑی ہو جس سے پورا بدن ڈھانپ لیا جائے ، ازواج مطہرات اور صحابیات اس چادر کو اپنے جسم کے او پر اس طرح لپیٹ لیا کرتی تھیں جس سے ان کے چہرہ اور جسم کا بیشتر حصہ چھپ جایا کرتا تھا، یاد رکھیں کہ شریعت کا اصل مقصد پر دہ" ہے، خواہ وہ چادر سے حاصل ہو یا موجودہ برقع اور نقاب سے، شریعت کو پردے کی کسی خاص شکل و صورت یا ڈیزائن سے کوئی بحث نہیں، البتہ پردہ ایسا ضرور ہونا چاہئے جو جسمانی نشیب و فراز اور اس کے خطوط کو بخوبی چھپا سکے ، جو عورتیں موجودہ برقع، حجاب یا نقاب کے بجائے پردے کے لیے بڑی چادر استعمال کرتی ہیں اور پورے بدن کو ڈھانپ لیتی ہیں، اپنے چہرے کو صحیح معنوں میں چھپا لیتی ہیں، وہ یقیناً پردے کا حکم بجالاتی ہیں۔

(اسلام، عورت اور پردہ، ص ٢٨، مطبوعہ ادارہ ماہنامہ سنی دنیا درگاہ اعلی حضرت بریلی شریف)۔واللّٰه تعالیٰ عزوجل و رسوله ﷺ أعلم بالصواب۔


کتبه:-  وکیل احمد صدیقی نقشبندی پھلودی جودھپور راجستھان۔

خادم:-  الجامعۃ الصدیقیۃ سوجا شریف باڑمیر راجستھان۔

٤ صفر المظفر ١٤٤٥ھجری۔      بروز منگل

22 اگست 2023







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney