اس شرط پر قرض دینا کہ کھیت کا غلہ دینا ہوگا

 سوال نمبر 2444

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں 

کسی کو 50 ہزار روپیہ اس شرط پر دینا کہ جب تک مستقرض 50 ہزار واپس نہیں کرے گا تب تک اسے 2/4 کنٹل غلہ دینا ہوگا ہے پھر روپیہ ادا کرنے کے بعد غلا بند ہوجائے گا۔(یعنی یہ کسی کے مجبوری کا فائدہ اٹھانا ہوا). ایسا کرنا کیسا ہے ؟

المستفتی ریاض احمد مسعودی برائچ شریف یوپی



             {بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم}

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب: کسی شخص کو قرض اس شرط پر دینا کہ جب تک قرض ادا نہ کرے گا تب تک کوئی چیز (مثلأ غلہ وغیرہ) دیتا رہے گا اور جب قرض ادا کردے گا تو وہ چیز دینا بند کردےگا جیساکہ صورت مسئولہ میں ہے کہ کسی کو 50 ہزار روپے اس شرط پر دیے کہ جب تک وہ پیسے واپس نہ کرے گا تب تک 2/4 کنٹل غلہ دینا تڑیگا پھر جب روپیہ ادا کردے گا تو وہ غلہ دینا بند کردے گا اس طرح کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ سود ہوجائے گا جس کا لینا حرام ہے۔


    حدیث شریف میں ہے:

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ آتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَام رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ إِلا تَجِيءُ فَأَطْعِمْكَ سَرِيْفًا وَتَمْرًا وَتَدْخُلَ فِي بَيْتٍ ثُمَّ قَالَ إِنَّكَ بِأَرْضِ الرِّبَابِهَا فَاشٍ إِذَا كَانَ لَكَ عَلَى رَجُلٍ حَقٌّ فَاهْدَى إِلَيْكَ جمْلَ بَيْن أَو حِمْلَ شَعِيْرٍ أَوْ حِمْل فت فلا تأخذه فانه رِبًا۔

ترجمہ: حضرت سعيد بن ابی بر دو اپنے والد گرامی سے روایت کرتے میں وہ فرماتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ آیا اور حضرت عبداللہ بن سلام سے ملا۔ انہوں نے کہا' کیا آپ میرے ساتھ نہیں چلیں کے تا کہ میں آپ کو ستو اور کھجور میں کھلاؤں۔ ہم گھر میں داخل ہوئے تو انہوں نے کہا: آپ ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں سود کا عام رواج ہے ۔ جب آپ کا کسی آدمی پر قرض ہو اور وہ آپ کو گھاس چاره یا کوئی دوسری حقیری چیز بھی تھے کے طور پر دے تو اسے نہ لینا کیونکہ وہ سود میں شمار ہوگی۔

(صحیح البخاری ، کتاب مناقب الأنصار ، باب مناقب عبداللّٰه بن سلام رضی اللہ عنہ ، الحدیث ٣٨١٤، جلد ٢، صفحہ ٥٦٤)۔


  فتاوى عالمگیری میں ہے:

وكذلك إذا أقرض رجلاً دراهم و دنانير ليشترى المستقرض من المقرض متاعا بثمن غال فهو مكروه وان لم يكن شراء المتاع مشروطا في القرض ولكن المستقرض اشترى من المقرض بعد القرض بثمن غال فعلى قول الكرخي لا بأس به وذكر الخصاف في كتابه وقال ما أحب له ذلك وذكر شمس الائمة الحلوانى أنه حرام أه‍....

ترجمہ: اسی طرح اگر کوئی شخص کسی کو درہم اور دینار اس لیے قرض دے کہ قرض لینے والا قرض دینے والے سے کوئی چیز زیادہ قیمت پر خریدے تو یہ ناپسندیدہ ہے، اگرچہ قرض میں اس چیز کے خریدنے کی شرط نہ تھی، لیکن قرض لینے والے نے قرض دینے والے سے قرض لینے کے بعد زیادہ قیمت میں خریدی تھی۔ تو کرخی کے قول کے مطابق اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اور خصاف نے اپنی کتاب میں ذکر کیا اور کہا کہ اس کے بارے میں اسے کیا پسند آیا، اور شمس الأئمہ حلوانی نے ذکر کیا کہ وہ حرام ہے۔

(کتاب البیوع ، الباب التاسع عشر فی القرض ، جلد ۳ ، صفحہ ٢٠٣/٢٠٤، مطبوعہ بولاق مصر المحمیۃ)۔

 

  صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ: زید نے عمر سے کہا مجھے اتنے روپے قرض دو میں اپنی یہ زمین تمہیں عاریت دیتا ہوں جب تک میں روپیہ ادا نہ کروں تم اس کی کاشت کرو اور نفع اٹھاؤ یہ ممنوع ہے۔

آج کل سود خوروں کا عام طریقہ یہ ہے کہ قرض دیکر مکان یا کھیت رہن رکھ لیتے ہیں مکان ہے تو اس میں مرتہن سکونت کرتا ہے یا اس کو کرایہ پر چلاتا ہے کھیت ہے تو اس کی خود کاشت کرتا ہے یا اجارہ پر دیتا ہے اور نفع خود کھاتا ہے یہ سود ہے اس سے بچنا واجب ہے۔ 

(بہار شریعت، قرض کا بیان، جلد ۲، حصہ ١١، صفحہ ٧٦٠، مطبوعہ دعوت اسلامی)۔

              


کتبه: العبد الفقیر وکیل احمد صدیقی نقشبندی پھلودی جودھپور راجستھان۔

١٣ صفر المظفر ١٤٤٥۔  بروز جمعرات

31 اگست 2023







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney