زوجہ کے مطالبے پر تین طلاق بیک وقت دینا کیسا ؟

 سوال نمبر 2443


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎


کیا فرماتے ہیں علمائے دین شرع متین مندرجہ ذیل  سوال میں کہ

ہندہ نے زید سے کہا کہ آپ اس لائق نہیں ہے کہ آپ کے ساتھ رہ سکوں ہندہ کا مطالبہ ہے کہ تین طلاق مجھے دو ، تو کیا زید تین طلاق بیک وقت دے سکتا ہے یا نہیں

اور زید ہندہ کے مطالبے پر تین طلاق دے دیا تو طلاق کون سی واقع ہوگی 

خلع کی کیا صورت ہے 



سائل۔۔۔ مولانا شمیم القادری مظفر پور بہار


وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

الجواب بعون الملک الوہاب 


تینوں طلاقیں بیک وقت دینا ناجاٸز و گناہ ہے!

اگر دے دی تو طلاق مغلظہ واقع ہوجاۓگی ایسی صورت میں حلالہ وغیرہ کے بغیر دوبارہ نکاح میں ہرگز نہیں آسکتی!


 علامہ عبداللہ بن شیخ محمد معروف بدامادافندی حنفي متوفیٰ ١٠٧٨هـ تحریر فرماتےہیں ۔۔۔


(وَبِدْعِيُّهُ) أَيْ بِدْعِيُّ الطَّلَاقِ عَدَدًا (تَطْلِيقُهَا ثَلَاثًا أَوْ ثِنْتَيْنِ بِكَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ) مِثْلُ أَنْ يَقُولَ أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا، أَوْ ثِنْتَيْنِ وَهُوَ حَرَامٌ حُرْمَةً غَلِيظَةً وَكَانَ عَاصِيًا لَكِنْ إذَا فَعَلَ بَانَتْ مِنْهُ


اور طلاق میں عدد کے اعتبار سے بدعی یہ ہے کہ اپنی بیوی کو  تین طلاقیں دیدے یا دو طلاقیں دیدے مثلا  یہ کہدے  تجھے تین طلاق  یا دو طلاق تو یہ سخت حرام ہے گنہگار ہوگا لیکن اگر ایسا کیا تو اس کی عورت اس جدا ہو جائے گی (یعنی طلاق مغلظہ واقع ہوجاۓگی!


(مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر ، المجلد الاول ، کتاب الطلاق ، ص ٣٨٢  

دار احیاء التراث العربی)


اگر زید نے تین طلاق نہیں دی ہے تو بہت اچھا ہے!

لہذا زید کو چاہیے خود سے و دیگر رشتہ دار و احباب و پنچاٸتی لوگوں کے ذریعے معاملےکو سلجھاۓ  ان شاء اللہ ، اللہ پاک کوٸی صلح کا راستہ ضرور بنادےگا!

اور اگر خدانخواستہ حیلے اپنانے کےبعد کوٸی راستہ نہ نکلے تو ایک طلاق دیدے پھر بیوی عدت گزارنےکےبعد جس سےچاہےنکاح کرلے اور اگر بعدطلاق رجعی اگر دوران عدت دل مل گیا تو رجعت ہوجاۓگی اور عدت پوری ہوبھی گٸ تب بھی بغیر کسی مزاحمت و حلالے کے نکاح ہوجاۓ گا!


خلع ،، مال کے عوض نکاح ختم کرنےکو خلع کہا جاتا ہے یعنی اگر زوجین میں حد سےزیادہ نااتفاقی رہتی ہے صلح کا کوٸی راستہ نہیں بچتا تو خلع کرسکتےہیں اس میں شرط ہے کہ عورت خلع قبول کرے لہذا آپ سے کچھ مال وغیرہ ٹہرا کر بیوی خلع لےسکتی ہے تو ایسی صورت میں طلاق باٸن پڑےگی! 


علامہ برہان الدین ابو الحسن علی بن ابوبکر مرغینانی متوفی٥٩٣ھ تحریرفرماتےہیں ۔۔


اذاتشاق الزوجان و خافان لایقیما حدوداللہ فلابأس بان تفتدی نفسھا منہ ۔۔۔۔ فاذافعل ذٰلک وقع بالخلع تطلیقة باٸنة و لزمھا المال


(الھدایة مع الدّرایة ، المجلدالثانی ، کتاب الطلاق ، ص ٤١٣

مکتبہ رہمانیہ لاہور)


اور صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی متوفیٰ ١٣٦٧ھ تحریر فرماتےہیں ۔۔۔


مال کے بدلے میں نکاح زائل کرنے کو خلع کہتے ہیں عورت کا قبول کرنا شرط ہے بغیر اس کے قبول کیے خلع نہیں ہو سکتا اور اس کے الفاظ معین ہیں ان کے علاوہ اور لفظوں سے نہ ہو گا،،،،

 اگر زوج و زوجہ میں نا اتفاقی رہتی ہو اور یہ اندیشہ ہو کہ احکام شرعیہ کی پابندی نہ کرسکیں گے تو خلع میں مضایقہ نہیں اور جب خلع کر لیں تو طلاق بائن واقع ہو جائے گی اور جو مال ٹھہرا ہے عورت پر اس کا دینا لازم ہے


(بہارشریعت ، حصہ ٨ ، ص١٩٤

مکتبہ مدینہ دھلی)


واللہ اعلم ورسولہ

کتبـــہ

 عبیداللّٰه حنفی بریلوی مقام دھونرہ ضلع بریلی شریف ، یوپی

 ١٢/صفرالمظفر ؁١٤٤٥ھ

٣٠ /اگست ؁٢٠٢٣ء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney