بکرا یا بکری کا پیشاب نجاستِ غلیظہ ہے یا خفیفہ

 سوال نمبر 2463


السلام علیکم ورحمۃ اللہ تعالی وبرکاتہ۔

الإستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین شرع متین‌‌اس مسئلہ کے بارے میں کہ بکرا یا بکری کا پیشاب نجاستِ غلیظہ ہے یا خفیفہ اور اس کا حکم کیا ہے؟ قرآنِ کریم وحدیثِ مبارک کی روشنی میں واضح فرمائیں۔

(سائل: محمد وسیم القادری شراوستوی، انڈیا)





وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب: بکرا بکری وغیرہ حلال جانوروں کا پیشاب نجاستِ خفیفہ ہے۔

   چنانچہ امام ابو البرکات عبد اللہ بن احمد نسفی حنفی متوفی٧١٠ھ اور ان کے حوالے سے علامہ نظام الدین حنفی متوفی١١٦١ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے: وبول ما یؤکل لحمہ والفرس وخرء طیر لا یؤکل مخفف۔

(کنز الدقائق، کتاب الطھارۃ، باب الأنجاس، ص ٥٢)(الفتاوی الھندیۃ، کتاب الطھارۃ، الباب السابع فی النجاسۃ وأحکامھا، الفصل الثانی فی الاعیان النجسۃ، ٤٦/١)

یعنی، جن جانوروں کا گوشت حلال ہے(جیسے گائے، بیل، بھینس، بکری، اونٹ وغیرہا) ان کا پیشاب اور گھوڑے کا پیشاب اور جس پرندے کا گوشت حرام ہے(جیسے کوا، چیل، شِکرا، باز، بہری) اس کی بیٹ نجاستِ خفیفہ ہے۔

   اور اس کا حکم یہ ہے کہ کپڑے کے حصہ یا بدن کے جس عضو میں لگ جائے اگر اس کی چوتھائی سے کم ہے(مثلًا دامن میں لگی ہے تو دامن کی چوتھائی سے کم، آستین میں اس کی چوتھائی سے کم۔ یوہیں ہاتھ میں ہاتھ کی چوتھائی سے کم ہے) تو معاف ہے کہ اس سے نماز ہوجائے گی اور اگر چوتھائی کی مقدار ہے تو بے دھوئے نماز نہ ہوگی۔ اسی طرح بہار شریعت جلد اول، حصہ دوم، صفحہ ٣٨٩ میں ہے۔


واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب


کتبہ:.

محمد اُسامہ قادری

پاکستان، کراچی

اتوار، ١٤/ ربیع الآخر، ١٤٤٥ھ۔ ٢٩/ اکتوبر، ٢٠٢٣ء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney