سوال نمبر 2473
السلام علیکم ورحمۃالله وبرکاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں
بیٹا زید ابھی ماں کے شکم میں تھا اور باپ بکر کا دنیا سے انتقال ہوگیا اب زید کے پیدا ہونے کے بعد زید اپنے باپ بکر کے جائداد میں حصہ کا حقدار ہوگا یا نہیں؟؟
قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں عین نوازش کرم ہوگا۔
(المستفتی غلام قادر برکاتی ) چترا جھارکھنڈ
بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب: زید (بیٹا)ماں کے شکم میں تھا اور باپ کا انتقال ہونے کے بعد پیدا ہوا جب بھی وہ بھی میراث کا حقدار ہوگا اور اس کو بھی اپنے باپ کی وراثت سے حصہ ملے گا۔
جیساکہ: شیخ نظام الدین اور علماء ہند کی ایک جماعت فرماتی ہے کہ:
الحمل یرث ویوقف نصیبه باجماع الصحابۃ رضی اللہ عنہم اھ....
ترجمہ حمل وارث ہوگا اور اس کا حصہ موقوف رکھا جائے گا اس پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔
فتاویٰ عالمگیری، کتاب الفرائض، الباب السابع فی میراث الحمل، جلد ٦، صفحہ ٥٠٤، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)۔
اور مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد وقار الدین حنفی قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ: اگر تقسیم وراثت کے وقت بیوی کے پیٹ میں بچہ ہو تو اس کا حصہ محفوظ رکھا جائے گا۔(بہار شریعت، حصہ ۲۰ صفحہ ۱۱۷۶/ مطبوعہ دعوت اسلامی)
مزید تفصیل کے لئے بہار شریعت کے مذکورہ ص کا مطالعہ کریں
لہذا زید اپنے باپ کی وراثت کا حقدار ہوگا۔ والله تعالیٰ عزوجل و رسوله ﷺ أعلم بالصواب۔
کتبه: وکیل احمد صدیقی نقشبندی پھلودی جودھپور راجستھان (الھند)۔
٢٦ جمادی الثانی ١٤٤٥۔ بروز پیر 11 دسمبر 2023۔
0 تبصرے