جلسہ استراحت نہ کرنے کی دلیل

 سوال نمبر 2478


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ 

علماء کرام کی بارگاہ عرض ہے کہ احناف جلسۂ استراحت نہیں کرتے اس کی دلیل کیا ہے؟؟

حوالہ مع حدیث نمبر جواب عنایت فرماٸیں۔

المستفتی: محمد محب رضا ضلع پورنیہ بہار




وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرْكَاتُهٗ 

الجواب  بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَابِ: جلسۂ استراحت (یعنی پہلی اور تیسری رکعت میں دوسرے سجدے کے بعد کھڑے ہونے سے قبل بیٹھنا) احناف کے نزدیک اس کا ترک کرنا سنت ہے اور جلسۂ استراحت کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔

جیساکہ حدیث ہے۔

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ یَنْھَضُ فِی الصَّلوٰۃِ عَلیٰ صُدُوْرِ قَدَمَیْهِ اھ.....

قَالَ أَبُوْ عِیْسیٰ حَدِیْثُ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَلَیْهِ الْعَمَلُ عِنْدَ اَھْلِ الْعِلْمِ یَخْتَارُوْنَ أَنْ یَّنْھَضَ الرَّجُلُ فِی الصَّلوٰۃِ عَلیٰ قَدَمَیْهِ اھ.... 

ترجمہ: حضرت ابوھریرہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نماز میں اپنے قدموں کی انگلیوں پر اوپر اٹھ جاتے تھے۔ 

ابو عیسیٰ نے فرمایا کہ اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ وہ اس بات کو اختیار کرتے ہیں کہ آدمی اپنے قدموں کی انگلیوں پر اوپر اٹھ جائے۔

(جامع الترمذی ابواب الصلوٰۃ، جلد ١، صفحہ ٣٨، مجلس البرکات 

السنن الکبری میں ہے:

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْأَعْمَسُ قَالَ : رَأَيْتُ عُمَارَةَ بْنَ عُمَيْرٍ يُصَلِّى مِنْ قِبَلِ أَبْوَابِ کِنْدَةَ۔ قَالَ فَرَأَيْتُهُ رَكَعَ ثُمَّ سَجَدَ ، فَلَمَّا قَامَ مِنَ السَّجْدَةِ الْآخِيرَةِ قَامَ كَمَا هُوَ فَلَمَّا اِنْصَرَفَ ذَكَرَتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ عَدَلَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَرِيدَ : أَنَّهُ رَأَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ يَقُومُ عَلَى صُدُورِ قَدَمَیْهِ فِي الصَّلَاةِ.

ترجمہ: سلیمان اعمش فرماتے ہیں کہ میں نے عمارہ بن عمیر کو ابواب کندہ کی جانب نماز پڑھتے دیکھا۔ آپ نے رکوع کیا پھر سجدہ کیا ، پھر جب دوسرے سجدے سے اٹھے تو اسی طرح کھڑے ہو گئے ۔ جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے ان کے سامنے جلسہ استراحت کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا: مجھے عبد الرحمن بن یزید نے بتلایا کہ انہوں نے عبد اللہ بن مسعود کو دیکھا وہ نماز میں اپنے قدموں کی انگلیوں پر اوپر کھڑے ہوجاتے تھے۔

(السنن الکبریٰ للبیہقی مترجم، کتاب الصلوٰۃ، جلد ٣، صفحہ ٤٩٧)۔

"ھدایہ میں ہے:

"قَالَ: فَإِذَا إِطْمَأَنَّ سَاجِدََا كَبَّرَ وَإِسْتَوٰى قَائِمًا عَلىٰ صُدُوْرِ قَدَمَيْهِ وَلَا يَقْعُدُ وَلَایَعْتَمِدُ بِیَدَیْهِ عَلَی الْاَرْضِ“ 

ترجمہ: نمازی جب سجدہ کرتے ہوئے مطمئن ہو جائے تو تکبیر کہے اور بیٹھے بغیر ،اپنے قدموں کی انگلیوں پر اٹھتے ہوئے سیدھا کھڑا ہو جائے اور نہ بیٹھے اور نہ ہاتھوں کا سہارا لے۔

(ہدایہ،کتاب الصلاۃ،باب صفۃ الصلاۃ، جلد ١، صفحہ ١٠١، مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ)۔

رد المحتار میں ہے: 

الاعتماد وجلسة الاستراحة السنة عندنا تركهما.۔۔۔ فيكره فعلهما تنزيها مع انھما سنتان عند الشافعی“ 

(ترجمہ: سجدوں کے بعداٹھتے ہوئے زمین پرہاتھ رکھ کر اٹھنا اور جلسہ استراحت ،ان دونوں کا چھوڑنا ہمارے نزدیک سنت ہے پس ان کاکرنامکروہ تنزیہی ہے باوجودیکہ وہ دونوں امام شافعی کے نزدیک سنت ہے۔

(رد المحتار، کتاب الطھارۃ، جلد ۱، صفحہ ٢٧٩، دار عالم الکتب بیروت-لبنان)۔

وَاللّٰهُ تَعَالٰی عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُهٗ ﷺ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ



کتبه: وکیل احمد صدیقی نقشبندی پھلودی جودھپور راجستھان (الھند)

٦ جمادی الثانی ١٤٤٥۔ بروز بدھ۔ 20 دسمبر 2023۔







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney