مدرسے کے پیسے چوری ہو جائیں تو ؟

 سوال نمبر 2479


اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمُةُاللّٰهِ وَبَرْکَاتُهٗ

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک مدرسے کے پیسے چوری ہوگئے ہیں تو کیا وہ پیسے مدرسہ کے صدر صاحب کے ذمہ ہے کہ وہ اپنے پاس سے دیں یا صدر کے ذمہ نہیں ہے؟؟

اس بارے میں شرعی حکم بحوالہ بتاکر عند اللہ ماجور ہوں.

المستفتی: محمد نظام الدین گرام مرزا پور کریم الدین ضلع مرادآباد۔




وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَ بَرْكَاتُهٗ

الجواب  بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَابِ: مدرسہ کے پیسے صدر صاحب کے پاس امانت ہوتے ہیں اور امانت کا حکم یہ ہے کہ وہ امین کی مکمل حفاظت کے باوجود بغیر تعدی (زیادتی) کے چوری ہوجائے یا ضائع ہوجائے تو امین اس کا ضامن نہیں (یعنی امین پر اس کا ضمان دینا واجب نہیں) ہے لیکن اگر اس کی تعدی اور غفلت کی وجہ سے چوری ہوئی اور وہ ثابت ہوجائے تو ضمان واجب ہے۔ 

لہٰذا واقعی صدر نے مدرسہ کے پیسوں کی حفاظت میں کوئی کسر باقی نہ رکھی اور حقیقۃ مدرسہ کے پیسے چوری ہوگئے ہیں تو صدر صاحب کے ذمہ نہیں ہے۔ لیکن اگر صدر نے اس کی مکمل حفاظت نہ کی اور اس کی عدم توجہی کے سبب چوری ہوئی ہے تو صدر پر اس کا ضمان واجب ہے۔

جیساکہ:

علامہ زین الدین ابن نجیم رحمہ اللّٰه البحر الرائق میں فرماتے ہیں: 

وَھِیَ أَمَانَةٌ فَلاَتَضَمَنُ بِالْهَلَاكِ وَ لِلْمُوْدِعِ أَنْ يَّحْفَظَهَا بِنَفْسِهٖ اه‍.....

ترجمہ وہ امانت ہلاک ہوجائے تو اس کا ضمان نہیں ہے اور مودع کے ذمہ اس کی حفاظت واجب ہے۔

اس کے تحت شیخ محمد بن حسین بن علی قادری حنفی نے لکھا ہے: 

لِأَنَّهٗ يَحْفَظُهَا بِمَا يَحْفَظُ بِهٖ مَالَهٗ اه‍....

ترجمہ: اس لیئے کہ وہ اس کی ایسے ہی حفاظت کریگا جیسے اپنے مال کی حفاظت کرتا ہے۔

(کِتَابُ الْوَدِیْعَتْ، جلد ٧، صفحہ ٤٦٤/٤٦٥، مطبوعہ بیروت لبنان)۔

حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ: 

ودیعت کا حکم یہ ہے کہ وہ چیز مودع کے پاس امانت ہوتی ہے اس کی حفاظت مودع پر واجب ہوتی ہے۔ 

نیز ودیعت ہلاک ہوجائے تو اس کا ضمان واجب نہیں۔ 

(ودیعت کا بیان، بہار شریعت جلد ۳، حصہ ١٤، صفحہ ٣٢، مطبوعہ دعوت اسلامی)۔

مفتی اعظم پاکستان مفتی وقار الدین قادری رضوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:

اگر واقعی اپنے حوالے کی جانے والی امانتوں کی اسی طرح حفاظت کی جیسا کہ وہ اپنے سامان کی حفاظت کرتا ہے اور اس کے باوجود اس سے یہ امانتیں چھین لی گئیں تو ایسی صورت میں اس شخص پر تاوان نہیں۔ اور اگر اس شخص نے ان امانتوں کی اس طرح حفاظت نہیں کی جس طرح یہ اپنے مال اور سامان کی حفاظت کرتا ہے تو اس صورت میں اس پر تاوان ہے۔

(کتاب الحدود، قسم اور ان گواہی کا بیان، جلد ٣، صفحہ ٣٥٧)۔

لیکن اگر صدر کہے پیسے چوری ہوگئے اور پتہ نہ چل سکے کہ چوری کسی اور نے کی ہے یا صدر خود ہضم کرگیا تو اب حکم یہ ہے کہ اس کو قسم دلائی جائے اگر قسم کھانے سے انکار کردے تو اس پر ضمان واجب ہے اور اگر قسم کھالے کہ چوری ہوگئی تو اس پر ضمان نہیں۔

جیساکہ حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ: 

مودَع کہتا ہے ودیعت ہلاک ہوگئی اور مالک اس کی تکذیب کرتا ہے (جھوٹا بتاتا ہے یعنی اس سے انکار کرتا ہے)، مالک کہتا ہے اس پر حلف دیا جائے(قسم دی جائے) حلف دیا گیا اس نے قسم کھانے سے انکار کردیا اس سے ثابت ہوا کہ چیز اس کے یہاں موجود ہے لہٰذا اس کو قید کیا جائے گا اُس وقت تک کہ چیز دیدے یا ثابت کردے کہ چیز نہیں باقی رہی۔

(بہار شریعت، ودیعت کا بیان، حصہ ١٤، صفحہ ٤٦، مطبوعہ دعوت اسلامی)۔ وَاللّٰهُ تَعَالٰی عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُهٗ ﷺ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔



کتبه: وکیل احمد صدیقی نقشبندی پھلودی جودھپور راجستھان (الھند)

٢ جمادی الثانی ١٤٤٥۔ بروز ہفتہ

15 دسمبر 2023۔







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney