معذور کے احکام

 سوال نمبر 2484


اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرْكَاتُهٗ

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل میں کہ

(١) معذور کی تعریف کیا ہـے؟ وضاحت کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں 

(٢) اور یہ بھی تحریر فرمائیں کہ کسی معذور کے پیچھے نماز درست ہوتی ہے یا نہیں؟

 (٣) اگر کوئی ہاتھ سے معذور ہو یعنی کسی کا ہاتھ کام نہ کرتا ہو تو اسکے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے ؟

اطمینان بخش جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا، 

المستفتی۔ محمد مشتاق احمد رضوی کشن گنج بہار مقیم حال پونہ



                (بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ) 

وَ عَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرْكَاتُهٗ

الجواب  بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَابِ : شرعی معذور؛ وہ شخص ہے جس کو اسباب نواقضِ وضو میں سے کوئی سبب مسلسل پیش آتا رہے اور ایک نماز کا وقت پورا اس طرح نہ گزرے کہ اس کو وہ سبب عارض نہ ہو۔

جیسا کہ در مختار مع رد المحتار میں ہے:

"صاحب عذر من به سلس بول لا يمكنه إمساكه او استطلاق بطن او انفلات ريح.. إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة بان لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضؤ و يصلي فيه خالياً عن الحدث ولو حكماً ؛ لان الانقطاع اليسير ملحق بالعدم"

وہ شخص جس کو سلسل بول ہو یا پیٹ کا بہنا(مسلسل دست) ہو یا ریح کا خارج ہونا ہو جس کا روکنا ممکن نہ ہو،اگر ایک فرض نماز کے مکمل وقت گھیر لے اس طرح کہ اس نماز کے مکمل وقت میں اتنا موقع نہ ملے کہ اسے حدث نہ ہو اور وضو کرکے نماز پڑھ لے اگرچہ حکمًا ،کیوں کہ تھوڑا سا انقطاع (عذر کا رکنا) عدم (نہ رکنے ) کے حکم سے ملحق ہے۔

(باب الحيض:مطلب في احكام المعذور،جلد ۱، صفحہ ٥٠٤،مطبوعہ بیروت لبنان)۔

حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:

"وہ شخص جس کو کوئی ایسی بیماری ہے کہ ایک وقت پورا ایسا گزر گیا کہ وضو کے ساتھ نماز فرض ادا نہ کر سکا معذور ہے، اس کا بھی یہی حکم ہے کہ وقت میں وضو کرلے اور آخر وقت تک جتنی نمازیں چاہے اس وضو سے پڑھے، اس بیماری سے اس کا وضو نہیں جاتا، جیسے قطرے کا مرض، یا دست آنا، یا ہوا خارج ہونا،‌ وغیرہ "

(بہار شریعت،جلد ۱،حصہ ٢،صفحہ ٣٨٥، مطبوعہ دعوت اسلامی)۔وَاللّٰهُ تَعَالٰی عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُهٗ ﷺ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔


(٢):معذور شرعی جس کو اسباب نواقضِ وضو میں سے کوئی لاحق ہو اس کے پیچھے غیر معذور کی نماز درست نہیں ہے۔

فتاویٰ ھندیہ میں ہے:

یَجُوْزُ اِقْتِدَاءُ الْمَعْذُوْرِ بِالْمَعْذُوْرِ إِنْ إِتَّحَدَ عُذْرُھُمَا وَ إِنْ إِخْتَلَفَ فَلَا يَجُوْزُ کَذَا فِی التَّبْیِیْنِ اھ..

ترجمہ معذور کے لئے معذور کی اقتداء کرنا درست ہے جبکہ دونوں  کا عذر ایک ہو اور دونوں کے عذر مختلف ہوں تو درست نہیں ہے" 

ایسا ہی تبیین الحقائق میں ہے۔

کتاب الصلوٰۃ،الباب الخامس،الفصل الثالث، جلد ۱،صفحہ ٨٤،مطبوعہ بولاق مصر المحمیۃ)۔

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:

"معذور اپنے مثل یا اپنے سے زائد عذر والے کی امامت کرسکتا ہے، کم عذر والے کی امامت نہیں کرسکتا اور اگر امام و مقتدی دونوں کو دو قسم کے عذر ہوں، مثلاً ایک کو ریاح کا مرض ہے، دوسرے کو قطرہ کا تو ایک دوسرے کی امامت نہیں کرسکتا"

(بہار شریعت،امامت کا بیان،جلد ۱،حصہ ٣، صفحہ ٥٦١، مطبوعہ دعوت اسلامی)۔وَاللّٰهُ تَعَالٰی عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُهٗ ﷺ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔


(٣):جس شخص کا ہاتھ شل ہوگیا ہو(یعنی کام نہ کرتا ہو) اور لوگ اس سے نفرت کرتے ہوں تو اس کی امامت مکروہ تنزیہی ہے۔اور اگر لوگ اس سے نفرت نہ کرتے ہوں یا وہی شخص تمام حاضرین میں مسائل نماز و طہارت کا زیادہ علم رکھنے والا ہو وہی اولی ہے۔

جیساکہ علامہ ابنِ عابدین شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:

’’كَذٰلِكَ أَعْرَجُ يَقُوْمُ بِبَعْضِ قَدِمِهٖ، فَالْاِقْتِدَاءُ بِغَيْرِهٖ أَوْلىٰ تتارخانية، وَ كَذَا۔۔۔مَنْ لَهٗ يَدٌ وَاحِدَةٌ ‌فَتَاوَى ‌الصَّوْفِيَة عَنِ التُّحْفَةِ‘‘ 

ترجمہ:اِسی طرح پاؤں کے بعض حصے پر کھڑے ہونے والے  ٹانگ سے معذور  شخص کے علاوہ دوسرے کی اقتدا بہتر ہے۔ یہی حکم (اس کا ہے)جس کا ایک ہاتھ ہو،اُن کی اقتدا کرنا مکروہ تنزیہی ہے۔

(کتاب الصلوٰۃ باب الامامۃ، ردالمحتار مع درمختار،جلد ۲،صفحہ ٣٠٢،مطبوعہ بیروت لبنان)۔

امام اہلسنت سیدی اعلٰی حضرت امام احمدرضا خان علیہ الرحمہ اسی طرح کے ایک سوال کے متعلق فرماتے ہیں کہ: 

"خیال مذکور غلط ہے اُس کے پیچھے جوازِ نماز میں کلام نہیں، ہاں غایت یہ ہے کہ اُس کا غیر اَولیٰ ہونا ہے، وہ بھی اُس حالت میں کہ یہ شخص تمام حاضرین سے علم مسائل نماز وطہارت میں زیادت نہ رکھتا ہو، ورنہ یہی اَحق و اَولیٰ ہے۔“(فتاویٰ رضویہ،جلد ٦،صفحہ ٤٥٠،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)۔

حضور فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد الامجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ: 

جس شخص کا داہنا ہاتھ کہنی سے کٹا ہوا ہے اگر وہ وضو و غسل وغیرہ صحیح کرلیتا ہے، اور اس میں کوئی شرعی خرابی نہیں ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے۔

(فتاویٰ فقیہ ملت، جلد اول، باب الامامۃ، صفحہ ١١٥، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)۔

وَاللّٰهُ تَعَالٰی عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُهٗ ﷺ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ 



کتبــہ : وکیل احمد صدیقی نقشبندی پھلودی جودھپور راجستھان (الھند)۔

١٠ جمادی الثانی ١٤٤٥۔ بروز اتوار۔ 24 دسمبر 2023۔

 







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney