نا معلوم چیز کی بیع کرنا

 سوال نمبر 2494

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرْكَاتُهٗ

الاستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص مجہول چیز کی بیع کافر و مشرک سے کرے تو کیا یہ بیع کرنا جائز ہے؟

بحوالہ جواب عنایت فرمائیں۔


المستفتی : محمد رضاء الحق کٹیہار



وَ عَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرْكَاتُهٗ

                    (بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ)

الجواب بعون الملک الوھاب: مجہول شیئ کی بیع، بیع فاسد ہے اور عقود فاسدہ کے ذریعے مسلمان یا ذمی کا مال حاصل کرنا جائز نہیں ہے البتہ حربی کافر سے بغیر کسی بدعہدی اور دھوکہ کے (کیونکہ بدعہدی کفار کے ساتھ بھی حرام ہے) عقود فاسدہ کے ذریعے مال حاصل کرنا جائز ہے جبکہ مسلمان کے لئے نفع بخش ہو۔

جیساکہ:

علامہ شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

فلا بأس بأن يأخذ منهم أموالهم بطيب أنفسهم بأي وجه كان، لأنه إنما أخذ المباح على وجه عري عن الغدر فيكون ذلك طيباً له، والأسير والمستأمن سواء حتى لو باعهم درهماً بدرهمين أو باعهم ميتة بدراهم أو أخذ مالاً منهم بطريق القمار فذلك كله طيب له اهـ ملخصا اھ....

ترجمہ: پس اس کے لیے ان کے مال ان رضا کی ساتھ لینے میں کوئی حرج نہیں چاہے کسی بھی طریقے سے لے، اس لیے کہ اس نے صرف حلال چیز کو اس طریقے سے لیا جو خیانت سے پاک ہو، تو یہ اس کے لیے اچھا ہوگا، اور قیدی اور محفوظ آدمی برابر ہیں، یہاں تک کہ اگر اس نے ان سے ایک درہم کی بیع دو درہم کے عوض کی، یا مردار کی بیع ایک درہم کے عوض کی، یا جوئے کے ذریعے ان سے رقم لی۔ تو یہ سب اس کے لیے اچھا ہے۔

(رد المحتار، کتاب البیوع، باب الربا، مطلب؛ فی استقراض الدراھم عدداً، جلد ۷، صفحہ ٤٢٣، مطبوعہ بیروت-لبنان)۔

حضور صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:

عقد فاسد کے ذریعے کافر حربی کا مال حاصل کرنا ممنوع نہیں یعنی جو عقد مابین دو مسلمان ممنوع ہے اگر حربی کے ساتھ کیا جائے تو منع نہیں مگر شرط یہ ہے کہ وہ عقد مسلم کے لیے مفید ہو مثلا ایک روپیہ کے بدلے میں دو روپے خریدے یا اس کے ہاتھ مردار کو بیچ ڈالا کہ اس طریقہ سے مسلمان کا روپیہ حاصل کرنا شرع کے خلاف اور حرام ہے اور کافر سے حاصل کرنا جائز ہے۔

(بہار شریعت، سود کا بیان، جلد ۲، حصہ ۱۱، صفحہ ٧٧٥، مطبوعہ دعوت اسلامی)۔

لہذا: صورت مستفرہ میں حربی کافر سے اس قسم کی بیع جائز ہے۔ اور خیال رہے کہ یہاں کے کفار ذمی نہیں ہے لہذا یہاں کے کفار سے اس قسم کی بیع جائز ہے جبکہ مسلمان کا نفع ہو۔

وَاللّٰهُ تَعَالٰی عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُهٗ ﷺ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ 



کتبـــــــــه: وکیل احمد صدیقی نقشبندی پھلودی جودھپور راجستھان (الھند)۔

خادم: الجامعۃ الصدیقیہ سوجا شریف باڑمیر راجستھان (الھند)۔

٦ رجب المرجب ١٤٤٥۔ ١٨ جنوری ٢٠٢٤۔ بروز جمعرات۔







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney