مسجد صغیر کا اطلاق کتنی صف پرہے؟

 سوال نمبر 2501

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ 

مسئلہ:۔کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ مسجد صغیر کا اطلاق کتنی صف پر ہے ؟اورنمازی کے آگے سے گزرنے کی کیا حد ہے؟

المستفتی:۔ عبداللہ قادری



وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب بعون الملک الوہاب

مسجد صغیر ومسجد کبیر میں فقہا کا اختلاف ہے بعض نے ساٹھ ہاتھ اور بعض نے چالیس ہاتھ لکھا ہےجیسا کہ ردالمحتار میں قہستانی کے حوالے سے ہے "(قوله: و مسجد صغير) هو أقل من ستين ذراعًا، وقيل: من أربعين، وهو المختار، كما أشار إليه في الجواهر"چھوٹی مسجد سے مراد وہ ہے جو ساٹھ ہاتھ سے کم ہو،بعض نے چالیس ہاتھ کہا اور مختار یہی ہے جیسا کہ اس کی طرف جواہر میں اشارہ ہے۔(رد المحتار‌‌كتاب الصلاة باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيهاص ۳۹۸/دار عالم للکتب الریاض)

چونکہ ایک ہاتھ شرعی ۱۸/انچ کا ہوتاہے ،اور بارہ انچ کا ایک فٹ ہوتا ہے یعنی ایک ہاتھ شرعی ڈیڑھ فٹ ہوا ،تو چالیس ہاتھ شرعی ساٹھ فٹ ہوا ،پس معلوم ہوا کہ کی مسجد صغیر وہ ہے جو ۶۰/فٹ مکسر سے کم ہے ۔

یعنی اگر ۶۰/فٹ مکسر مسجد ہے تو وہ کبیر کے حکم ہے اور مسجد کبیر یا صحرا کا مسئلہ یہ ہے کہ موضوع سجود (یعنی نمازی جب قیام میں ہواور خشوع وخضوع کے ساتھ اپنی نگاہ مصلیٰ کے اس حصہ پر جمائے جہاں سجدہ میں پیشانی رکھتا ہے پھر جہاں تک آگے اسے دکھائی دے وہ موضوع سجود ہےاس)کے آگے سے گزر سکتے ہیں،اور مسجد صغیر یا مکان میں نماز پڑھے تو دیوار قبلہ تک نکلنا جائز نہیں ہے۔جیسا کہ درمختارمیں ہے "(ومرور مار فی الصحراء اوفی مسجد کبیر بموضع سجودہ )فی الاصح (او)مرورہ (بین یدیہ) الیٰ حائط القبلۃ (فی) بیت و(مسجد) صغیر فانہ کبقعۃ واحدۃ" (باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہاصفحہ۷۶/دار الکتب علمیۃ)

مگر سیدی سرکار اعلیٰ حضرت رضی اللہ عنہ کی تحقیق کے مطابق مسجد کبیر وہ ہے جو سولہ ہزار ستون پر ہے۔چنانچہ رد المحتار کی عبارت نقل کرنے کے بعد اقول کہہ کر فرماتے ہیں :مگر یہ شبہ ہے کہ فاضل مذکور(علامہ قہستانی علیہ الرحمہ)کو عبارت جوا ہر سے گزرا،عبارت جواہر الفتاوی دربار دار ہے نہ کہ دربارۂ مسجد ،مسجد کبیر صرف وہ ہے جو مثل صحرا اتصال صفوف شرط جیسے مسجد خوارزم ،کہ سولہ ہزار ستون پر ہے،باقی عام مساجد اگرچہ دس ہزار گز مکسر ہوں مسجد صغیر ہیں اور ان میں دیوار قبلہ تک بلا حائل مرور ناجائز ہے۔(فتاوی رضویہ جلد ۷/صفحہ ۲۵۷/دعوت اسلامی)

دوسری جگہ تحریر فرما تے ہیں کہ:ان دونوں مسئلوں میں مسجد کبیر سے ایک ہی مراد ہے یعنی نہایت درجہ عظیم و وسیع مسجد جیسے جامع خوارزم کہ سولہ ہزار ستون پر تھی یا جامع قدس شریف کہ تین مسجدوں کا مجموعہ ہے ۔باقی عام مساجد جس طرح عام بلاد(شہروں) میں ہوتی ہیں سب ان دونوں حکموں میں متحد ہیں اگر چہ طول وعرض میں سو سو گز ہوں ۔(فتاوی رضویہ جلد ۸/صفحہ ۸۳/دعوت اسلامی)

مذکورہ بالاعبارت سے معلوم ہوا ہے کہ اصح قول کے مطابق مسجد کبیر وہ ہےجو سولہ ہزار ستون پر واقع ہو اور جو اس سے کم ہے وہ مسجد صغیر ہے ۔چونکہ شہروں میں جو عام مساجد ہیں وہ مسجد صغیر کے حکم میں داخل ہیں لہذا ان تمام مساجد میں دیوار قبلہ تک نکلنا جائز نہیں بلکہ حرام ہےہمارے نزدیک سیدی سرکار اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی تحقیق درست ہے لہذا اسی پر عمل کیا جا ئے اور مساجد یا گھر میں نمازی کے آگے گزرنےسے بچا جا ئےکہ کتب احادیث میں نمازی کے آگے سے گزرنے پرسخت وعیدیں وارد ہیں ۔واللہ اعلم بالصواب

نوٹ:۔مزید معلومات کے لئے فتاوی رضویہ جلد ۷/۸ /مذکورہ بالاحوالہ کا مطالعہ کریں

کتبہ 

فقیرتاج محمد قادری واحدی







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney