بدعت اور شرک کسے کہتے ہیں

 سوال نمبر 2513

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرْكَاتُهٗ

الاستفتاء: علماء کرام و مفتیانِ عظام کی بارگاہ میں ایک سوال پیش ہے حل فرماکر دیں

(١) بدعت کسے کہتے ہیں اور بدعت کتنے طرح کی ہوتی ہے؟

(٢) اور شرک کسے کہتے ہیں؟ 

اِس حوالے اگر کوئ تحریر مسائل شرعیہ میں تو ارسال کریں مہربانی ہوگی۔

المستفتی :محمد حبیب رضا نعمانی




وَ عَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرْكَاتُهٗ

الجواب بعون الملک الوھاب: (١) بدعت کی لغوی معنیٰ ہے؛ نئی چیز، انوکھی چیز۔

اصطلاح شرع میں بدعت؛ ہر وہ جدید (نیا) کام جو نبی کریم ﷺ کے مبارک دور میں وجود میں نہ آیا ہو حضور کے دور کے بعد وجود میں آیا ہو۔ بدعت کی اولاً دو قسمیں ہیں۔ (١) بدعتِ حسنہ (٢) بدعتِ سیئہ

ا)بدعت حسنہ وہ نیا کام جو قرآن و سنت کے مخالف نہ ہو

۲) بدعت سئیہ وہ نیا کام جو قرآن و سنت کے مخالف ہو۔

حافظ احمد بن علی بن حجر العسقلانی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

و المحدثات" بفتح الدال جمع محدثۃ، والمراد بھا: ما أحدث و لیس له أصل فی الشرع و یسمی فی عرف الشرع بدعۃ، و ما کان له أصل یدل علیه الشرع فلیس ببدعۃ اھ..

قال الشافعي:البدعة بدعتان: محمودۃ ومذمومة فما وافق السنة فھو محمود وما خالفھا فھو مذموم،أخرجه أبو نعیم بمعناہ من طریق إبراھیم بن الجنید الشافعي اھ....

(ترجمہ: اور محدثات دال کے فتح کے ساتھ یہ محدثۃ کی جمع ہے، اور اس سے مراد ایسا طریقہ ایجاد کیا گیا شریعت میں جس کی کوئی اصل نہیں ہے عرف شرع اس کو بدعت کہتے ہیں، اور وہ طریقہ کہ جس کی اصل ایسی ہو کہ اس پر شرع دلالت کرے تو وہ بدعت نہیں۔ اور امام شافعی نے فرمایا کہ بدعت دو طرح کی ہے، محمودہ اور مذمومہ، پس وہ جو سنت کے موافق ہو وہ محمودہ اور جو سنت کے مخالف ہو وہ مذمومہ، ابو نعیم نے اس معنی کے ساتھ اس کو تخریج کیا ہے ابراھیم بن جنید شافعی کے طریق سے)۔

(فتح الباری، کتاب الاعتصام ، جلد ١٧، صفحہ ١٣٤/١٣٥، مطبوعہ دار طیبہ)۔

اور مفتی جلال الدین احمد امجدی  تحریر فرماتے ہیں: 

قال النووى البدعة كل شيء عمل على غير مثال سبق وفى الشرع احداث مالم يكن في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم و قوله كل بدعة ضلالة عام مخصوص یعنی شارح مسلم حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ایسا کام جس کی مثال زمانہ سابق میں نہ ہو (لغت میں) اس کو بدعت کہتے ہیں اور شرع میں بدعت یہ ہے کہ کسی ایسی چیز کا ایجاد کرنا جو رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم کے ظاہری زمانہ میں نہ تھی۔

واضح ہو کہ بدعت کی کئی قسمیں ہیں۔ جیسا کہ شامی صفحہ ۳۹۳ جلد اول میں ہے: قدتكون) اى البدعة واجبة كنصب الادلة لرد على اهل الفرق الضالة وتعلم النحو المفهم للكتاب والسنة ومندوبة كاحداث نحور باط ومدرسة وكل احسان لم يكن في الصدر الأول ومكروهة كزخرفة المساجد ومباحة كالتوسع بلذيذ الماكل والمشارب والثياب كما في شرح الجامع الصغير المناوى عن تهذيب النووى ومثله في الطريقة الحمدية للبركلى المدينى!

بدعت کبھی واجب ہوتی ہے جیسے گمراہ فرقے والوں پر رد کے لئے دلائل قائم کرنا اور علم نحو کا سکھنا جو قرآن و حدیث سمجھنے میں معاون ہوتا ہے اور بدعت کبھی مستحب ہوتی ہے جیسے مدرسوں اور مسافر خانوں کی تعمیر اور ہر وہ نیک کام کرنا جو ابتدائی زمانہ میں نہیں تھا اور بدعت کبھی مکروہ ہوتی ہے جیسے مسجدوں کو آراستہ و مزین کرنا اور بدعت کبھی مباح ہوتی ہے جیسے لذیذ کھانے پینے اور کپڑے کی کشادگی اختیار کرنا جیسا کہ مناوی کی شرح جامع صغیر میں تہذیب النودی سے منقول ہے اور اس کے مثل برکلی کی کتاب طریقہ محمد یہ میں ہے۔

(فتاویٰ فیض الرسول، جلد اوّل، صفحہ ٩۷، مطبوعہ اکبر بک سیلرز لاہور)۔

(٢) شرک کی لغوی معنیٰ ہے : شریک، حصہ دار، ساجھا۔

اور اصطلاح شرع میں شرک کی معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو بھی مستحق عبادت ماننا۔

 اور مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ حضرت علامہ سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں: الاشراك هو اثبات الشريك في الالوهية بمعنى وجوب الوجود كما للمجوس او بمعنى استحقاق العبادة كما لعبدة الاصنام یعنی اللہ تعالی کے سوا کسی دوسرے کو بھی واجب الوجود ماننا جیسا کہ مجوسیوں کا عقیدہ ہے۔ یا کسی غیر خدا کو لائق عبادت سمجھنا۔ جیسا کہ بت پرستوں کا شرک ہے۔ (شرح عقائد نسفی صفحہ ٦١) اور حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی بخاری رحمتہ اللہ علیہ تعالی فرماتے ہیں: شرک سے در وجود و در خالقیت و در عبادت اور (اشعۃ اللمعات) اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ شرک تین قسم پر ہوتا ہے۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالی کے سوا کسی اور کو بھی واجب الوجود ٹھہرائے ۔ دوسرے یہ کہ خدا تعالی کے سوا کسی اور کو خالق جانے ۔ تیسرے یہ کہ خدا تعالی کے سوا اور کسی کی عبادت کرے یا اسے مستحق عبادت جانے۔

(فتاویٰ فیض الرسول، جلد اوّل، صفحہ ٩٦، مطبوعہ اکبر بک سیلرز لاہور)۔

وَاللّٰهُ تَعَالٰی عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُهٗ ﷺ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ 


کتبـــــــــه: وکیل احمد صدیقی نقشبندی پھلودی جودھپور راجستھان (الھند)۔

خادم: الجامعۃ الصدیقیہ سوجا شریف باڑمیر راجستھان (الھند)۔

٢٦ شعبان المعظم ١٤٤٥ ھجری۔ ٨ مارچ ٢٠٢٤ عیسوی۔ بروز جمعہ







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney