نقد صدقہ کو بینک سے دینا کیسا

 سوال نمبر 2547


السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلے میں کی زید کو کسی نے نقد پیسوں میں صدقہ فطر دیا کہ کسی مستحق کو دے دینا زید نے لے لیا اب کیا زید وہی نقد رپیہ دےگا یا پھر بینک اکاؤنٹ سے کسی مستحق کو دے سکتا ہے؟نیز یہ بھی بتائیں کہ زید سے وہ صدقہ کی رقم اپنے پیسوں میں مل گئی ہو تو اب زید کیسے ادا کرے جواب عنایت فرماکر رہنمائی فرمائیں المستفتی: محمد اقبال رضا محلہ حسین باغ  بریلی شریف


وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ!

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب بعون الملک الوھاب 

اولًا کسی مؤکل نے زید کو وکیل بنا کر کہا کہ یہ نقد رقم صدقئہ فطر ہے کسی مستحق کو دے دینا تو وکیل کو چاہیے کہ وہ نقد روپیہ مستحق کو دے اور اگر بینک اکاؤنٹ سے دینا چاہے تو دے سکتا ہے دونوں صورتوں میں صدقئہ فطر ادا ہو جاۓگا۔۔۔۔۔ ثانیًا مؤکل نے زید کو صدقہ کی رقم دی اور زید سے وہ رقم اپنے پیسوں میں مل گئ یا ملا دی تو ایسی صورت میں مؤکل نے جتنی رقم زید کو دی تھی اتنی رقم زید صدقہ کی نیت سے کسی مستحق کو دے دے صدقہ ادا ہو جاۓگا البتہ اگر وہ رقم زید نے پہلے خود خرچ کر ڈالی اور بعد میں اپنی رقم صدقہ میں دی تو ایسا کرنا جائز نہیں۔۔جیسا کہ علامہ ابن عابدین شامی قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں "الوکیل بدفع الزکاة اذا امسک دراھم المؤکل ودفع من مالہ لیرجع ببدلھا فی دراھم المؤکل صح بخلاف ما اذا انفقھا اولا علی نفسہ مثلًا ثم دفع من مالہ فھو متبرع" یعنی زکوة دینے والے کا وکیل اگر مؤکل کی رقم رکھ لے اور اپنی رقم میں سے اس طور پر ادا کرے کہ اس رقم کے عوض مؤکل کی رقم لے لوں گا تو زکوة ادا ہو جاۓگی بخلاف اس کے اگر اس نے وہ رقم پہلے اپنے اوپر خرچ کر دیا اور پھر اپنے پیسے زکوة میں دیے تو یہ تبرع ہے ( یعنی اپنے طور پر کام کرنا ہوا جیسا کہ بخشش عطیہ وغیرہ) ( ردالمحتار علی الدرالمختار ج٣ ص ٢٢٤ ) 

اور حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں "زکوة دینے والے نے وکیل کو زکوة کا روپیہ دیا وکیل نے اسے رکھ لیا اور اپنا روپیہ زکوة میں دے دیا تو جائز ہے اگر یہ نیت ہو کہ اس کے عوض وکیل کا روپیہ لےلےگا اور اگر وکیل نے پہلے اس  روپیہ کو خرچ کر ڈالا بعد کو اپنا روپیہ زکوة میں دیا تو زکوة ادا نہ ہوئی بلکہ یہ تبرع ہے اور مؤکل کو تاوان دےگا ( بہار شریعت ج ١ ح ٥ ص ٨٨٨ )


واللہ تعالٰی اعلم و رسولہ الاعلٰی اعلم بالصواب عز و جل و صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم 


کتبہ : سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی نوری ارشدی ( شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند )ھ بتاریخ ١٤ شوال المکرم ١٤٤٥ھ بمطابق ٢٤ اپریل ٢٠٢٤ء بروز بدھ







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney