سوال نمبر 2548
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے کہا کہ پہلے دن قربانی کرنے میں زیادہ ثواب ہے دوسرے دن اس سے کم اور تیسرے دن دونوں دنوں سے کم ثواب ہے اس کے بارے میں علماء کرام کا کیا کہنا ہے جواب حوالہ کے ساتھ عنایت فرمائیں ؟
سائل ، محمد حسنین رضا حنیفی یوپی
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب
زید کا قول صحیح ہے کہ پہلے دن قربانی کرنا افضل ہے دوسرے دن پہلے دن سے کم درجہ افضل ہے تیسرا دن اس سے کم درجہ ہے ، اس لیے چاہیے کہ پہلے دن قربانی کر کے فضیلت کو حاصل کرے ، لیکن اگر کوئی شخص کسی وجہ سے دس ذی الحجہ کو قربانی نہ کر پائے تو گیارہ میں کرے یا بارہ تاریخ میں غروب آفتاب سے پہلے قربانی کرے کہ اس میں بھی اجر و ثواب حاصل ہوتا ہے
حدیث شریف میں ہے
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى. ح وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، وَهَذَا لَفْظُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرِ بْنِ لُحَيٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُرْطٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ أَعْظَمَ الْأَيَّامِ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمُ النَّحْرِ ثُمَّ يَوْمُ الْقَرِّ ، قَالَ عِيسَى: قَالَ ثَوْرٌ: وَهُوَ الْيَوْمُ الثَّانِي، وَقَالَ: وَقُرِّبَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدَنَاتٌ خَمْسٌ أَوْ سِتٌّ فَطَفِقْنَ يَزْدَلِفْنَ إِلَيْهِ بِأَيَّتِهِنَّ يَبْدَأُ، فَلَمَّا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا، قَالَ: فَتَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ خَفِيَّةٍ لَمْ أَفْهَمْهَا، فَقُلْتُ: مَا قَالَ ؟، قَالَ: مَنْ شَاءَ اقْتَطَعَ ،
حضرت عبداللہ بن قرط رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں سب سے بڑھ کر عظمت والا دن یوم النحر ( دس ذوالحجہ ) اس کے بعد یوم القر ( ۱۱ ذوالحجہ ) ہے ۔‘‘ عیسیٰ نے ثور سے نقل کیا کہ یہ دوسرا دن ہوتا ہے ۔ اور بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے پانچ یا چھ اونٹنیاں لائی گئیں تو وہ آپ کے قریب ہونے لگیں کہ آپ اسی سے ابتدا کریں ۔ جب وہ سب ( نحر ہو گئیں اور ) پہلوؤں کے بل گر پڑیں تو آپ نے آہستہ سے کچھ فرمایا جو میں نہ سمجھ سکا ۔ میں نے ( ساتھ والوں سے ) پوچھا کہ آپ نے کیا فرمایا ہے ؟ تو بتایا کہ ’’ جو چاہے ( گوشت ) کاٹ لے جائے (سنن ابو داؤد حدیث نمبر ١٧٦٥)
فتاوی ہندیہ میں ہے
"وَقْتُ الْأُضْحِيَّةِ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ الْعَاشِرُ وَالْحَادِيَ عَشَرَ وَالثَّانِيَ عَشَرَ، أَوَّلُهَا أَفْضَلُهَا وَآخِرُهَا أَدْوَنُهَا، وَيَجُوزُ فِي نَهَارِهَا وَلَيْلِهَا بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ مِنْ يَوْمِ النَّحْرِ إلَى غُرُوبِ الشَّمْسِ مِنْ الْيَوْمِ الثَّانِي عَشَرَ"
قربانی کا وقت تین روز تک ہے یعنی ذی الحجہ کی دسویں و گیارھویں و بارھویں اور اول تاریخ افضل ہے اور آخر تاریخ اَدْوَنْ(کم درجہ) ہے اور دسویں تاریخ طلوع فجر سے لے کر بارھویں تاریخ غروب آفتاب تک ان ایام کے دن و رات میں قربانی جائز ہے (ج ٥ ص ٣٦٤ مکتبہ بیروت لبنان)
رد المحتار علی الدر المختار میں ہے یوم النحر الیٰ آخر ایامه وھي ثلاثة، افضلھا اولھا
اور یہ قربانی یوم نحر کی فجر سے لے کر یوم نحر کے آخری دن تک ہوگی ایام نحر تین ہیں ان میں سے افضل پہلا ہے ،
قوله : (أفضلها أولها ثم الثاني ثم الثالث كما في القهستاني عن السراجية" قوله : (أفضلها أولها) سب سے افضل پہلا دن اس کے بعد دوسرا دن پھر تیسرا دن ہے جس طرح قہستانی میں سراجیہ سے منقول ہے ، ( ج ۹ ص ٤٥٨ مکتبہ بیروت لبنان)
بہار شریعت میں ہے پہلا دن یعنی دسویں تاریخ سب میں افضل ہے پھر گیارہویں اور پچھلا دن یعنی بارہویں سب میں کم درجہ ہے (ج ٣ ص ٣٣٦ مکتبہ دعوت اسلامی)
تنبیہ ، شہر میں عید الاضحی کی نماز ادا کرنے کے بعد قربانی کرے اور دیہات میں طلوع فجر کے بعد بھی قربانی کر سکتا ہے
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد معراج رضوی واحدی سنبھل
0 تبصرے