بینک سے قرض لے کر عمرہ یا حج کرنا

 سوال نمبر 2554


السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماۓکرام و مفتیان عظام اس مسئلے میں کیا بینک سے سودی قرض لیکر عمرہ,حج کر سکتے ہیں یا نہیں شریعت کا اس بارے میں کیا حکم یے؟ جواب عنایت فرمائیے!

المستفتی: شیخ محمد رفیق پریل داہود شریف 


وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ 

الجواب بعون الملک الوھاب

سب سے پہلے یہ مسئلہ واضح ہو کہ عمرہ زندگی میں صرف ایک بار ادا کرنا سنت ہے واجب نہیں اور حج زندگی میں ایک بار فرض ہے حج واجب ہونے کی آٹھ شرطیں ہیں جب تک وہ سب نہ پائی جائیں حج فرض نہیں اور ان میں سے ایک شرط زاد راہ پر قادر ہونا بھی ہے جیسا کہ الھدایہ میں ہے” الحج واجب علی الاحرار البالغین العقلاء الاصحاء اذا قدروا علی الزاد و الراحلۃ “ یعنی: آزاد,بالغ,عاقل,تندرست لوگ جب زادِ راہ اور سواری پر قادر ہوں تو ان پر حج فرض ہے ۔(الھدایۃ ، کتاب الحج ، جلد ١، صفحہ ١٤٥) اگر کوئی زاد راہ پر قادر نہ ہو تو اس پر حج فرض نہیں۔اس لیے بینک وغیرہ سے سودی قرض لیکر عمرہ,حج کرنا جائز نہیں البتہ ان پیسوں سے عمرہ,حج  کرے تو ادا ہوجاۓگا لیکن سودی قرض لینے کا گناہ باقی رہےگا کیوں کہ بلا حاجت شدیدہ بینک سے قرض لینا ناجائز و حرام ہے قرآن و حدیث میں اس پر شدید وعیدیں آئی ہیں سودی معاملہ لین دین دنیوی و اخروی تباہی و بربادی کا سبب ہے اور اس میں ذلت و رسوائی بھی ہے۔۔چنانچہ اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید و فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے "یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ( سورةالبقرة ٢٧٨)

ترجمئہ کنزالایمان : اے ایمان والو! اگر تم ایمان والے ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔

فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ( سورةالبقرة٢٧٩)

ترجمئہ کنزالایمان: پھر اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے لڑائی کا یقین کرلو اور اگر تم توبہ کرو تو تمہارے لئے اپنا اصل مال لینا جائز ہے۔ نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ اورنہ تمہیں نقصان ہو

اور حدیث مبارک میں ہے "عن جابر قال لعن رسول الله صلی الله علیه و آلہ و سلم آکل الربا، وموکله، وکاتبه، وشاهدیه، وقال: هم سواء".(الصحيح لمسلم، باب لعن آکل الربا رقم ٢٥٩٨ ) 

یعنی: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم نے سود کھانے والے سود پر وکالت کرنے والے سودی دستاویز لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔

اور سود کے ایک درہم کو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم نے ٣٦ مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت گناہ قرار دیا ہے جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے "عن عبداللہ بن حنظلة غسیل الملآئکة قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم درھم ربا یاکولہ الرجل وھو یعلم اشد من ستة و ثلاثین زینة"( مسند امام احمد بن حنبل ج ٤ ص ٢٢٣ ) حضرت عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ نے کہا کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: سود کا ایک درہم جسے آدمی جان بوجھ کر کھاۓ اس کا گناہ چھتیس بار زنا کرنے سے زیادہ ہے 

البتہ اگر حج فرض ہو چکا تھا اور اس کے پاس روپیہ بھی موجود تھا اس کے باجود اس نے حج نہ کیا اور پھر روپیہ ضائع ہو گیا تو اب لازم ہے کہ وہ کسی سے قرض لیکر حج ادا کرے جیسا کہ در مختار میں ہے: "لو لم یحج حتی اتلف مالہ و سعہ ان یستقرض و یحج ولو غیر قادر علی وفائہ و یرجی ان لا یؤاخذہ اللہ بذالک ای لو ناویًا وفاء اذا قدر" ( در مختار ج ٣ ص ٥٢١ ) مال موجود تھا اور حج نہ کیا پھر وہ مال تلف ہو گیا تو قرض لیکر جاۓ اگرچہ یہ جانتا ہو کہ یہ قرض ادا نہ ہوگا مگر نیت یہ ہو کہ اللہ قدرت دےگا تو ادا کردوں گا۔پھر اگر ادا نہ ہو سکا اور نیت ادا کی تھی تو امید ہے کہ اللہ عز و جل اس پر مؤاخدہ نہ فرماۓ( بہار شریعت ج ١ ح ٦ ص ١٠٣٦ )

مذکورہ بالا قرآن و حدیث اور فقہی جزئیات کی تشریحات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ ربا یعنی سود شرعی طور پر حرام قطعی اور ناجائز ہے اور اتنا برا اور نا پسندیدہ ہے کہ قرآن مجید میں اسے اللہ تبارک و تعالٰی اور حضور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیا گیا ہے اور حدیث میں ٣٦ مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت گناہ قرار دیا گیا ہے لھذا بینک سے بلا وجہ شرعی سودی قرض لینا حرام ہے لیکن اگر اس رقم سے عمرہ یا حج کیا جاۓ تو ادا ہوجاۓگا مگر سود کا گناہ ہوگا اور عمرہ سنت ہے واجب نہیں اور اس کے لیے قرض لینے کی اجازت نہیں اور حج واجب ہونے کی ٨ شرائط ہیں ان میں سے ایک شرط زاد راہ کا مالک ہونا بھی ہے اگر کسی شخص کے پاس حج  فرض ہونے کی مقدار رقم نہ ہو یعنی آنے جانے  اور وہاں کے قیام و طعام اور اپنے ملک میں جن کا نقفہ اس پر واجب ہے مثلًا بیوی بچوں کے واپسی تک کے اخراجات نہ ہوں تو اس پر حج فرض نہیں اور جب حج فرض نہیں تو بینک سے سودی قرض لینے یا کسی سے روپیہ لیکر حج یا عمرہ کو جانے کی بالکل اجازت نہیں 


واللہ تعالٰی و رسولہ اعلم


کتبہ

 سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی نوری ارشدی 

( شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند )

 بتاریخ ١٨ شوال المکرم ١٤٤٥ھ بمطابق ٢٨ اپریل ٢٠٢٤ بروز اتوارa







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney