سوال نمبر 2555
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
علماء کرام کی بارگاہ میں عرض یہ ہے کہ کافر کے پیسوں کا کھانا کھانا کیسا ہے ؟ جواب ارشاد فرما دیجئے مہربانی ہوگی
المستفتی : محسن رضا یوپی انڈیا
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الجواب
بلا شبہ کافروں کے پیسوں سے کھانا کھانا جائز ہے جبکہ وہ بطور ہدیہ یا بطور نذر پیش کریں ، تو ان کے پیسے لینے میں کوئی حرج نہیں ، بشرطیکہ اس میں بد عہدی اور دھوکہ نہ پایا جاتا ہو،اور ذلت و رسوائی کا کوئی اندیشہ نہ ہو ،
امام برہان الدین ابو الحسن علی ابوبکر الفرغانی متوفی ٥٩٣ ھ فرماتے ہیں ،
وَلَانَّ مَا لَهُمْ مُبَاحٌ فِي دَارِهِمْ فَبِأَيِّ طَرِيقِ أَخَذَهُ الْمُسْلِمُ أَخَذَ مَالًا مُبَاحًا إِذَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ غَدْرٌ
کیونکہ دار الحرب میں اہل حرب کا مال مباح ہے۔ پس مسلمان اس کو جس طرح بھی حاصل کرے گا وہ مباح ہے مگر شرط یہ ہے کہ اس میں کوئی غدر نہ ہو (ہدایہ شریف باب الربا )
رد المحتار علی الدر المختار میں ہے لأن ماله ثمة مباح فيحل برضاه مطلقاً بلا غدر، فلا بأس بأن يأخذ منهم أموالهم بطيب أنفسهم بأي وجه كان، لأنه إنما أخذ المباح على وجه عري عن الغدر فيكون ذلك طيباً له،
کیونکہ اس کا مال وہاں مباح ہے پس وہ دھوکہ دہی کے بغیر مطلقاً اس کی رضا کے ساتھ حلال ہوتا ہے ،
کہ وہ ان کے اموال ان کی رضامندی کے ساتھ ان سے لے وہ کسی بھی اور طریقے کے ساتھ ہو کیونکہ اس نے اس بنا پر مباح مال لیا ہے کہ وہ غدر اور دھوکہ دہی سے خالی ہے پس وہ اس کے لیے طیب اور حلال ہوگا،
(ج ٧ ص ٤٢٣ مکتبہ بیروت لبنان )
بہار شریعت میں ہے کافروں کی خوشی سے جس قدر اُن کے اموال حاصل کرے جائز ہے۔ (ج٢ ص ٧٧٥ مکتبہ دعوت اسلامی)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد معراج رضوی واحدی سنبھل
0 تبصرے