یوم شک میں روزہ رکھنا کیسا؟


 سوال نمبر 2086

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہ یوم شک میں روزہ رکھنے کی ممانعت کیوں ہے؟ 

المستفتی عبد اللہ 




وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ 

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:

یوم الشک یعنی شعبان کی تیسویں تاریخ کو نفل کے علاوہ کوئی اور روزہ رکھنے کی ممانعت پر چونکہ حدیث شریف وارد ہے، اس لئے اس دن نفل کے سوا کوئی اور روزہ نہیں رکھ سکتے ہیں، اور اگر کوئی اس دن رمضان کے روزے کی نیت سے روزہ رکھے گا تو اس وجہ سے بھی مکروہ ہے کہ اس سے اہل کتاب کے ساتھ مشابہت لازم آئے گی کیونکہ انہوں نے اپنے روزوں کی مدت میں اضافہ کیا تھا۔

چنانچہ علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی متوفی٥٩٣ھ لکھتے ہیں:ولا یصومون یوم الشک الا تطوعا؛ لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: "لا یصام الیوم الذی یشک فیہ ان من رمضان الا تطوعا". وھذہ المسئلۃ علی وجوہ: احدھا: ان ینوی صوم رمضان، وھو مکروہ لما روینا، ولانہ تشبہ باھل الکتاب؛ لانھم زادوا فی مدۃ صومھم. والثانی: ان ینوی عن واجب آخر، وھو مکروہ ایضا لما روینا، الا ان ھذا دون الاول فی الکراھۃ. والثالث:ان ینوی التطوع، وھو غیر مکروہ لما روینا وھو حجۃ علی الشافعی رحمہ اللہ فی قولہ:یکرہ علی سبیل الابتداء. والمراد بقولہ صلی اللہ علیہ وسلم: "لا تتقدموا رمضان بصوم یوم ولا بصوم یومین" الحدیث: نھی التقدم بصوم رمضان؛ لانہ یؤدیہ قبل اوانہ۔ملخصا

(بدایۃ المبتدی وشرحہ الھدایۃ،٣٤٠/١)

یعنی،یوم الشک کو صرف نفلی روزہ رکھ سکتے ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے:یوم الشک میں نفل کے علاوہ کوئی اور روزہ نہیں رکھا جائے۔ اور یہ مسئلہ متعدد وجوہ پر ہے ان میں سے ایک صورت یہ ہے کہ وہ رمضان کے روزے کی نیت کرے گا اور یہ اس حدیث شریف کی وجہ سے مکروہ ہے جسے ہم نے روایت کیا ہے، اور اس لئے کہ اس سے اہل کتاب(یہودی اور عیسائی) کے ساتھ مشابہت لازم آئے گی کیونکہ انہوں نے اپنے روزوں کی مدت میں اضافہ کیا تھا۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ وہ رمضان کے علاوہ کسی دوسرے واجب کی نیت سے روزہ رکھے گا اور یہ اس حدیث شریف کی وجہ سے مکروہ ہے جسے ہم نے روایت کیا ہے مگر یہ کہ اس صورت میں کراہت پہلے سے کم ہے(کیونکہ پہلے سے مشابہت لازم آئے گی جبکہ اس سے نہیں)۔ اور تیسری صورت یہ ہے کہ نفل کی نیت سے روزہ رکھے اور یہ اس حدیث شریف کی وجہ سے مکروہ نہیں ہے جسے ہم نے روایت کیا ہے اور یہ امام شافعی علیہ الرحمہ کے خلاف حجت ہے کیونکہ ان کے نزدیک اس دن مطلقا روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ اور جو حدیث شریف میں ہے کہ تم ایک یا دو روزوں کے ذریعے رمضان کو مقدم نہ کرو۔ اس ممانعت سے مراد یہاں رمضان کے روزے کی نیت سے روزہ رکھ کر مقدم کرنا ہے کیونکہ اس نے رمضان آنے سے پہلے اس کے روزے کو ادا کیا ہے۔

   اور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی حنفی علیہ الرحمہ متوفی١٣٦٧ھ لکھتے ہیں:یوم الشّک یعنی شعبان کی تیسویں تاریخ کو نفل خالص کی نیّت سے روزہ رکھ سکتے ہیں اور نفل کے سوا کوئی اور روزہ رکھا تو مکروہ ہے، خواہ مطلق روزہ کی نیّت ہو یا فرض کی یا کسی واجب کی، خواہ نیّت معیّن کی کِی ہو یا تردد کے ساتھ یہ سب صورتیں مکروہ ہیں۔ پھر اگر رمضان کی نیّت ہے تو مکروہ تحریمی ہے، ورنہ مقیم کے لیے تنزیہی اور مسافر نے اگر کسی واجب کی نیّت کی تو کراہت نہیں۔(بہار شریعت،٩٧٢/١)

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

کتبہ:محمد اسامہ قادری

پاکستان،کراچی

ہفتہ،٢٩/شعبان،١٤٤٣ھ۔٢/اپریل،٢٠٢٢ء







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney