بالے میاں کی شادی کا واقعہ

 سوال نمبر 2559


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ


کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل میں کہ۔

 بالے میاں کا جو تیوہار (شادی)منایا جاتا ہے اس کی حقیقت کیا ہے اور لوگوں کا کہنا ہے کہ اس دن بارش اور آندھی ضرور آتی شریعت کی روشنی میں؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں تاکہ حقیقت لوگوں تک پہنچے

المستفتی 

طالب رضا


وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب


سرکار مسعود غازی علیہ الرحمہ کی شادی کی جو رسم ہے یہ حقیقت ہے اس کی وجہ یہ ہے  کہ سید رکن الدین اور سید جمال الدین جو ملک عرب سے آکر قصبہ رودولی ضلع بارہ بنکی میں متوطن ہو گئے تھے ان میں سے سید رکن الدین کے دولڑ کے تھے اور سید جمال الدین کی ایک لڑکی بارہ سال کی جن کا نام زہرہ تھا، بہت ہی خوبصورت اور حسین و جمیل تھی۔ لیکن دونوں آنکھوں سے معذور تھی۔ گھر میں خدا کی دی ہوئی دولت، ہر طرح کی آسائش مہیا ہونے کے باوجود نا بینا صاحبزادی کا علاج ممکن نہیں تھا۔ والدین اور اہل خاندان بچی کی مجبوریاں دیکھ کر تڑپ جاتےعرس غازی کے موقع پر جب چند دیوانے بہرائچ شریف سے لوٹ کر آئے تو کہنے لگے کہ جو بھی حاجت مند سالار مسعود کے مزار پر جاتا ہے تو بفضلہ تعالیٰ اس کا خالی دامن گوہر مراد سے بھر جاتا ہے۔ ہمارے سامنے چند اندھوں نے جب آستانہ پاک کی خاک آنکھوں میں لگائی تو سرکار غازی کے فیضان کرم سے فورا اندھی آنکھیں روشن ہو گئیں نیز دوسرے امراض والوں نے بھی شفا کلی پائی یہ وہ آستانہ ہے کہ جن کے وسیلے سے دعا مانگو تو رحمت الہی جھوم جھوم کر برسنے لگتی ہے۔ 


سید جمال الدین یہ واقعہ سن کر بہت خوش ہوئے  انھیں مایوسیوں کے اندھیرے میں امید کی ایک کرن نظر آئی۔ کہنے لگے کہ اگر ہماری بیٹی کی آنکھیں اچھی ہو گئیں تو ہم بھی بہرائچ حاضر ہو کر آپ کی بارگاہ میں گلہائے عقیدت پیش کریں گے اور

اپنے ہاتھوں سے مزار شریف پر روضہ تعمیر کریں گے۔


گھر میں آکر یہ حال زہرہ سے بیان کیا انھوں نے عزم مصمم کر لیا کہ اگر میری

بینائی واپس آگئی تو آخری دم تک مزار شریف پر جاروب کشی کی خدمت انجام دوں گی۔ آپ کی کرامات و تصرفات اور روحانی عظمت کا تذکرہ سن کر بغیر دیکھے عشق وتقع میں مبتلا ہو گئیں۔ صرف آپ کا نام سن کر دل و جان سے فدا ہو گئیں ۔ رفتہ رفتہ یہ عالم ہو گیا کہ دن ہے تو انھیں کی باتیں ، رات ہے تو انھیں کی یادیں ۔ اپنے یوسف کی چاہ میں زلیخا کی طرح روتی تھیں ۔ صرف مسعود مسعود کہہ پکارتی تھیں۔


ایک روز روتے روتے سو گئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ حضرت سرکار غازی ان کے آگے کھڑے ہو گئے اور ارشاد فرمایا کہ ائے زہرہ تو جس شخص کی مشتاق ہے وہ تیری نگاہوں کے سامنے کھڑا ہے، کیوں نہیں دیکھتی ہے؟ بی بی زہرہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کیا ائے پروردگار عالم اگر میں سرکار غازی کے عشق میں پکی ہوں تو میری آنکھوں میں روشنی عطا فر مادے تا کہ میں اپنے محبوب کا جمال

دیکھوں نہیں تو موت دے دے تاکہ محبوب کی جدائی سے نجات پا جاؤں

آنکھیں روشن ہونے کے بعد سب سے پہلے جو چیز ان کو نظر آئی وہ حضرت سید سالار مسعود غازی رضی اللہ عنہ کا جمال جہاں آرا تھا۔ حضرت کو دیکھ کر اس طرح بے قرار ہوئیں کہ پیچھے دوڑنے لگیں ۔ اتنے میں سالار مسعود نظروں سے غائب ہو گئے ۔ آنکھ کھلی تو کچھ نہ پایا۔ خواب کا خیال آیا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں ۔ والدین گھبرا کر دوڑے ہوئے آئے، بیٹی کی آنکھوں میں کرامت کا جلوہ دیکھ کر فرط مسرت سے جھوم اٹھے ۔ مگر زہرہ کا صدمہ فراق سے عجیب حال تھا۔ کھانا پینا چھوڑ کر آرام سے منھ موڑ لیا۔ آپ کی یاد میں ماہی بے آب کی طرح تڑپنے لگیں ۔ جب بے قراری حد سے زیادہ بڑھ گئی تو ایک رات خواب میں پھر حضرت سالار مسعود کی زیارت ہوئی اور بہرائچ آنے کی بشارت ملی۔ صبح کو زہرانے والدین سے رات کا خواب بیان کیا اور روضہ بنانے کی منت کو پوری کرنے کی تاکید کی۔ فورا سید جمال الدین نے سید رکن الدین کے بیٹے کو زہرا کے حقیقی ماموں کے ساتھ بہت زیادہ مال و دولت دے کر بہرائچ روانہ کر دیا۔


جب زہرا نے محبوب کی چوکھٹ کو بوسہ دیا اور اپنے خوابوں کے شہزادے کے قدموں میں سر رکھا تو حضرت نے زہرہ کے آئینہ دل کو علم باطنی سے منور کر کے نور

ولایت سے بھر دیا بی بی زہرہ نے سرکار کا روضہ تعمیر کرایا اور جاروب کشی کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔ سورج کنڈ پر گنج شہیداں کی تعمیر اور سالار سیف الدین کے قبہ کی تعمیر آپ ہی نے کروائی ۔ اس کے بعد آپ نے اپنے لئے حضرت کی آرام گاہ کے پچھم کی طرف اپنا مقبرہ تعمیر کرایا اور وصیت کر دی کہ میرے انتقال کے بعد مجھے

اسی میں دفن کیا جائے ، چنانچہ حسب وصیت آپ کو وہیں دفن کیا گیا۔ اس زمانے میں غیر ملکی معمار ہندوستان میں نہیں آئے تھے اور ہندوستان کے معمار اس سے بہتر روضہ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ چوں کہ بی بی زہرہ نے اپنی محبت کے شوق میں اس عمارت کو بنوایا تھا اس لئے سرکار غازی نے ان کی

محبت کے باعث اسی عمارت کو قبول کیا جو آج تک موجود ہے۔ گذشتہ زمانے میں بہت سے مسلم بادشاہوں اور سلاطین نے چاہا تھا کہ اس قدیم طرز کے گنبد کو توڑ کر آپ کے شایان شان گنبد تعمیر کریں۔ مگر جس نے بھی ایسی نیت کی اسے خواب میں آگاہ کر دیا گیا کہ خبردار میرے لئے میری زہرہ کا بنوایا ہوا مقبرہ ہی کافی ہے۔ اسے توڑ کر دوسرا بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ یہ وجہ ہے کہ بادشاہ اور امراء اپنی دولت کی فراوانی کی وجہ سے سر بہ فلک عمارت تو ضرور کھڑی کر سکتے تھے مگر جذبۂ صادق ، دلی خلوص اور قلبی محبت کی وہ اثر انگیزی کہاں سے لا سکتے تھے جو بی بی زہرہ نے ایک ایک اینٹ میں پیوست کی تھی ۔ جب بی بی زہرہ اٹھارہ سال کی ہوئی تو ۱۴ رجب ٤٣٠ھ بروز اتوار اس دار فانی سے دار جاودانی کی طرف رحلت فرما گئیں ۔ سبحان اللہ ۔ ایک ہی عمر ، تاریخ، دن اور مہینے میں سالار مسعود کی شہادت اور بی بی زہرہ کی وفات ہے مگر دونوں میں کافی فاصلہ ہے۔


حضرت بی بی زہرہ کی وفات کے بعد ان کے والدین عزیز واقارب کے ساتھ ہر سال رودولی  سے بہرائچ فاتحہ پڑھنے کے لئے جاتے تھے اور غلبۂ شوق میں کہتے تھے کہ ہم بی بی زہرہ کی شادی کے لئے جارہے ہیں۔ حضرت زہرہ کے والدین انتہائی شان و شوکت کے ساتھ مقررہ وقت پر حضرت سالار مسعود اور زہرا کے نام کی بارات سجا کر محفل عروسی رچا کر اس رسم کو ادا کرتے رہے۔ چوں کہ ماں باپ اپنی بیٹی کی محبت میں بے خود ہو گئے تھے اس لئے یہ طریقہ نکالا تھا جو ٤٣٠ھ سے اب تک جاری ہے ۔(سوانح مسعود غازی ص از٩٦ )

خیال رہے وہ جزبہ محبت میں شادی کا نام دیتے تھے لیکن حاضر ہوکر عرس مناتے تھے یعنی فاتحہ تلاوت وغیرہ جیسے احسن امور انجام دیتے تھے


رہی بات بارش یا آندھی توفان کی تو یہ ضروری نہیں ہے کہ ہرسال آئے نہ ہی کسی سوانح میں نظر سے گزری مگر کئی بار ایساہواہے کہ شادی کی رسم اداکی جاتی ہے اس موقع پر اندھی اور بارش ہوئی ہے ہوسکتاہے یہ موسم کے اعتبار سے ہوتاہوکیونکہ ہندی قاعدے کے اعتبار سے سیدہ زہرہ بی بی کے وصال کے وقت جیٹھ کا مہینہ تھا اسی وجہ سے  ہندی مہینہ کے اعتبار سے شادی جیٹھ کے ماہ میں ہوتی ہے اور اس ماہ میں آندھی بارش بسا اوقات ہوجاتی ہوسکتاہے یہی سب وجہ ہو


 واللہ اعلم بالصواب


نوٹ: دور حاضر میں جو شادی کی رسم ادا کی جاتی ہے یہ شرعی اعتبارسےجائز نہیں ہے کیوں کہ اس میں ڈھول تاشہ ناچ گانا دیگر لہو لعب شامل ہوتے ہیں اور یہ سب شرعاً ناجائز وحرام ہے جیسا کہ کتب فقہ و فتاویٰ میں مذکور ہے لہذا ایسی شادی بیاہ اور بارات میں ہرگز ہرگز شامل نہ ہوں خواہ وہ سرکار غازی پاک علیہ الرحمہ کی ہو یا کسی دوسری کی 

ہاں اگر واقعی فیض حاصل کرنا ہے تو دربار عالیہ میں باادب حاضر ہوں اور قرآن پاک کی تلاوت کریں ذکر واذکار کریں اور سرکار غازی پاک علیہ الرحمہ کے وسیلہ سے دعا کریں ان شاءاللہ تعالیٰ ضرور کامیابی ملےگی اور آپ کی حاجتیں پوری ہوں گی


            کتبہ 


محمد فرقان برکاتی امجدی 

٢٢/ شوال المکرم ١٤٤٥ھ

٢/ مئ۔ ٢٠٢٤  ء







ایک تبصرہ شائع کریں

1 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney