اسٹامپ پیپر پر طلاق کا حکم

 سوال نمبر 2558

السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علماۓدین ومفتیان شرع متین اس مسئلے میں "زید نے اسٹیمپ پیپرس میں وکیل سے یہ لکھوایا کہ میں اپنی بیوی ہندہ کو چُھٹا چھیڑا ( چھوڑنا ) کرکے نکاح کا خاتمہ کرتا ہوں" اور اس اسٹیمپ پیپرس پر زید اور اس کی بیوی ہندہ اور دیگر افراد نے اپنے اپنے دستخط کیے اور اس کی ایک کاپی ہندہ کو دی اور کچھ دنوں بعد زید کہتا ہے میں جب تک طلاق نہ دوں اس وقت تک ہندہ کو طلاق نہ ہوگی! اس بات کو تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا مذکورہ صورت میں ہندہ پر طلاق واقع ہوگئ یا نہیں اور عدت کا کیا مسئلہ ہے؟

المستفتی: غلام مصطفٰی مغل داہود شریف


وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرتہ

الجواب بعون الملک الوھاب 

بشرط صحت سوال اگر واقعی زید نے اسٹیپ پیپرس میں مذکورہ جملہ  "میں اپنی بیوی ہندہ کو چُھٹا چھیڑا ( چھوڑنا ) کرکے نکاح کا خاتمہ کرتا ہوں" لکھوایا اور اس پر دستخط بھی کر دیا تو اس صورت میں ہندہ پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئ کیوں کہ چھوٹا چھیڑا یعنی چھوڑنا لفظ صریح ہے اور یہ گجرات کے عرف میں بھی بطور صریح بولا جاتا ہے اور لفظ صریح سے طلاق رجعی واقع ہوتی ہے۔جیسا کہ البحرالرائق میں ہے: "ومن المتاخرین کانو یفتون بان لفظ التسریح بمنزلة التصریح یقع بہ طلاق رجعی بدون النیة"

یعنی: متاخرین علماۓکرام اس پر فتوی دیتے تھے کہ لفظ تسریح صریح کے برابر ہے جو بغیر نیت کے طلاق رجعی کو واقع کرتا ہے۔( البحرالرائق کتاب الطلاق باب کنایات قولہ سرحتک فارقتک ج ٣ ص ٥٢٤ )حضرت علامہ صدرالشریعہ در مختار کے حوالہ سے فرماتے ہیں "اردو میں یہ لفظ کہ میں نے تجھے چھوڑا صریح ہے اس سے ایک رجعی واقع ہوگی کچھ نیت ہو یا نہ ہو یوں ہی یہ لفظ کہ میں نے فارغ خطی یا فار خطی یا فار کھتی دی صریح ہے"( بہار شریعت ج ١ حصہ ٨ ص ٩ ) 

 ردالمحتار میں حضرت علامہ شامی قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں "الصریح ما غلب فی العرف استعمالہ فی الطلاق بحیث لایستعمل عرفا الا فیہ من ای لغۃ کانت”(ردالمحتار ج ٤ ص٤٦٤ ) یعنی: "صریح وہ ہے جسے اکثر عام طور پر طلاق کے معنی میں بولا جاتا ہو اگرچہ وہ کسی بھی زبان کا لفظ ہو" 

اور حضرت علامہ امام ابوبکر بن علی بن محمد الحدّاد الزبیدی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں 

 "فالصریح: ما ظھرالمراد بہ ظھورًا بینًا مثلًا انت طالق انت حرة..لان ھٰذہ الالفاظ تستعمل فی الطلاق ولا تستعمل فی غیرہ"یعنی: صریح وہ ہے جس سے طلاق مراد ہونا واضح طور پر ظاہر ہو مثلًا تو طلاق یافتہ ہے تو آزاد ہے اس لیے کہ یہ الفاظ طلاق میں استعمال ہوتے ہیں اور چیز میں استعمال نہیں ہوتے ( الجوھرةالنیرة ج ٢ ص ١٦٥ ) اور سیدی سرکار اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں "اگر فارغ خطی دینا وہاں کے محاورہ میں طلاق کے الفاظ صریحہ سے سمجھا جاتا ہے جیسا کہ یہاں کی بعض اقوام میں ہے کہ عورت کی نسبت اس کے کہنے سے طلاق ہی مفہوم ہوتی ہے تو دو طلاق رجعی ہوئیں (فتاوی رضویہ جدید، ج١٢، ص٥٦٩) اور بہار شریعت میں صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں "صریح وہ جس سے طلاق مراد ہونا ظاہر ہو اکثر طلاق میں اس کا استعمال ہو اگرچہ وہ کسی زبان کالفظ ہو

( بہار شریعت ج ٢ ح ٨ ص ١١٥ )مذکورہ بالا قفہی جزئیات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ لفظ چُھٹا چھیڑا ( چھوڑنا ) لفظ صریح ہے اور اس سے طلاق رجعی واقع ہوتی یے خواہ نیت ہو یا نہ ہو لھذا ہندہ پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئ اور زید کا یہ کہنا کہ میں جب تک طلاق نہ دوں اس وقت تک ہندہ کو طلاق نہ ہوگی یہ اسٹیپ پیپرس  لکھوانے اور اس پر دستخط کرنے کے بعد کا جملہ ہے اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا اور رہا عدت کا مسئلہ تو اس بارے میں حکم یہ ہے کہ طلاق یافتہ عورت اگر حیض والی ہو تو اس کی عدت کامل تین حیض ہوتی ہے اور حمل والی ہو تو عدت وضع حمل ہے اور آپ کے کہنے کے مطابق اس بات کو تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے لھذا عدت بھی پوری ہوگئ اگر ہندہ کے والدین ہندہ کا دوسرا نکاح کہیں اور کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں 


واللہ تعالٰی جل جلالہ و رسولہ اعلٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم اعلم بالصواب 


کتبہ : سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی نوری ارشدی ( شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند ) بتاریخ ٢١ شوال المکرم ١٤٤٥ھ بمطابق ١ مئی ٢٠٢٤ء بروز چہارشنبہ ( بدھ )







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney