اولیاء کرام کے مزار پر چراغ روشن کرنا کیسا

 سوال نمبر 2575


السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماۓدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ کیا اولیاۓکرام کے مزارات پر چراغ روشن کرنا جائز ہے؟ جواب عنایت فرمائیے!

المستفتی: محمد واثق عرب داہود شریف 


وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک والوھاب 

اولیاۓکرام اور ان کے مزارات شعائراللہ ہیں,اور ان کا ادب و احترام امت مسلمہ پر واجب ہے اس لیے اولیاۓکرام و صلحاۓعظام کے مزاروں کے پاس یا چلہ گاہ( جس جگہ بیٹھ کسی بزرگ نے عبادت و ریاضت کی ہو ) وہاں تعظیم کے طور پر چراغ اور قلندلیں روشن کرنا جائز ہے! 

جیساکہ مفسر اعظم حضرت علامہ امام اسماعیل حقی سہروردی علیہ الرحمہ قرآن مجید کی مشہور زمانہ تفسیر روح البیان میں فرماتے ہیں: "ایقاد القنادیل و الشمع عند قبور أولیاء و الصلحاء من باب التعظیم و الا جلال ایضاً للاولیاء فألمقصد فیھا مقصد حسن و نذر الزيت و الشمع للاولياء يوقد عند قبورهم لهم و محبة فيهم جائز ايضا لا ينبغي النهى عنہ" یعنی: اولیاء اور صالحین کی قبروں کے پاس شمع ( موم بتیاں ) اور قندلیں روشن کرنا یہ بھی اولیاۓکرام کی تعظیم و تکریم میں داخل ہے اس میں مقصد بہرحال بہتر ہے۔اولیاء کے لیے بطور محبت و تعظیم ان کے مزارات کے پاس زیتون کے تیل یا شمع ( موم بتی ) کی نذر ماننا بھی جائز ہے۔اس سے روکنا نہیں چاہیے! (روح البیان فی تفسیر القرآن ج ٣ ص ٤٠٠ سورةالتوبة داراحیاءالتراث العربی بیروت لبنان )


حضرت علامہ امام عبدالغنی نابلوسی قادری نقشبندی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: نذرالزیت والشمع للاولیاء یوقد عند قبورھم تعظیمًا لھم ومحبة فیھم جائز فی الجملہ" یعنی: اولیاۓکرام کے لیے بطور محبت و تعظیم ان کے مزارات کے پاس زیتون کے تیل یا شمع ( موم بتی ) کی نذر ماننا جائز ہے فی الجملہ,اور ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ”تعظیمًا لروحه المشرفة الخ"

 یعنی: اولیاۓکرام کی روح کریم کی تعظیم کےلیے چراغاں کرنا جائز ہے! ( کشف الظنون فی اصحاب القبور ص ١٦ ) 


حضرت علامہ مفتی احمدیار خاں نعیمی اشرفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:  "عام مسلمانوں کی قبر پر ضرورةً اولیاءاللہ کی مزارات پر اظہار عظمت کےلیےچراغ روشن کرنا جائز ہے چنانچہ حضرت علامہ امام عبدالغنی نابلوسی قادری نقشبندی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اذا کان موضع القبور مسجدا او علی طریق کان ھناک احد جالسًا او کان قبر ولی من الاولیاء او عالم من المحققین تعظیمًا لروحہ اعلامًا للناس انہ ولی لبرکو بہ و یدعو اللہ تعالٰی عندہ فیستجاب لھم فھو امر جائز" یعنی: اگر کسی قبر کی جگہ مسجد ہو یا قبر راستہ پر ہو یا وہاں کوئی بیٹھا ہو یا کسی ولی یا محقق عالم کی قبر ہو تو ان کی روح کی تعظیم کرنے اور لوگوں کو بتانے کے لیے کہ یہ ولی کی قبر ہے تاکہ لوگ اس سے برکت حاصل کرلیں اور وہاں اللہ تعالٰی سے دعا کرلیں تو چراغ جلانا جائز ہے  (جاءالحق ص ٢٤٣,٢٤٢ بحوالہ حدیقئہ ندیہ شرح طریقئہ محمدیہ مصری ج٢ ص ٤٢٩)


 مذکورہ بالا سلف صالحین کے  اقوال مبارکہ کی روشنی میں معلوم ہوا کہ اولیاۓکرام کی عقیدت و محبت اور تعظیم و توقیر کے لیے ان کے  مزاروں کے پاس یا ان کی چلہ گاہ پر چراغ جلانا,قلندیلیں روشن کرنا یا ان کے لیے تیل یا شمع کی نذر ماننا بالکل جائز ہے اس سے لوگوں کو منع کرنا اچھی بات نہیں! 

ہاں مگر اس بات کا ضرور خیال رہے کہ خاص قبر کے اوپر چراغ جلانا منع ہے,اور عام مسلمانوں کی قبروں پر بلاضرورت چراغ یا موم بتی جلانے کی اجازت نہیں البتہ راستے میں آمد و رفت کے لیے ضرورةً چراغ یا موم بتی روشن کر سکتے ہیں


واللہ تعالٰی جل جلالہ و رسولہ اعلٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم اعلم بالصواب 


کتبہ: سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی نوری ارشدی

( شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند )

بتاریخ ٢٣ذی قعدہ ١٤٤٥ھ بمطابق  ١جون ٢٠٢٤ء بروز ہفتہ







ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney