آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

قربانی کے جانور میں دوسرے کو شریک کرنا

 سوال نمبر  2585


السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماۓدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ زید نے قربانی کے لیے ایک جانور خریدا ہے اب اس جانور میں دوسروں کو شریک کرنا چاہتا ہے تو کیا زید اس میں دوسروں کو شریک کر سکتاہے؟ 

براہ کرم جواب عنایت فرمائیے 

المستفتی: سید محمد ذیشان اشرفی سہروردی بڑودہ گجرات


وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ

الجواب بعون الملک الوھاب 


اگر زید صاحب نصاب ہے تو اس جانور میں دوسروں کو شریک کر سکتا ہےاور اگر صاحب نصاب نہیں ہے تو دوسروں کو شریک نہیں کر سکتا!

کیوں کہ صاحب نصاب پر اس معین جانور کی قربانی واجب نہیں ہوتی بلکہ اس میں دیگر شرکاء کو شامل کرنا چاہے تو کر سکتا ہے اور اس جانور کو اس سے بیش قیمت والے جانور سے تبدیل کرنا چاہے تو یہ بھی کر سکتا ہے,لیکن اگر صاحب نصاب پہلے سے یہ نیت کرلے کہ "میں اس جانور میں دوسروں کو شریک کروں گا" تو اب ایسی صورت میں دوسروں کو بلا کراہت شریک کر سکتا ہے اگر پہلے شرکت کی نیت نہ کی اور بعد میں نیت کرتا ہے تو ایسا کرنا امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نزدیک مکروہ ہے کیوں کہ قربانی کا جانور اپنے جمیع اجزاء سمیت قربت کے لیے مختص ہو جاتا ہے اور اداۓ قربت سے پھرجانا ناپسندیدہ اور معیوب عمل ہے البتہ قربانی اس صورت میں بھی سب کی ہوجاۓگی۔


اور جو صاحب نصاب نہ ہو اور قربانی کی نیت سے جانور خریدا ہو تو اب اس میں دوسروں کو شریک کرنے کی اجازت نہیں بلکہ اسی معین جانور کی قربانی اس پر واجب ہے!

کیوں کہ فقیر پر از روۓ شرع شریف قربانی واجب نہیں ہوتی لیکن اگر وہ اپنے اوپر واجب کرلے تو واجب ہوجاتی ہے لھذا اس میں کسی کو شریک کرنا یا اس جانور کو تبدیل کرنا یا بیچنا شرعاً جائز نہیں,اگر دوسروں کو شریک کرےگا تو اسکی قربانی ہوجاۓگی لیکن دیگر شرکاء کو تاوان دینا لازم ہوگا! 


جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے:”ولو اشترى بقرةً يريد أن يضحي بها، ثم أشرك فيها ستة يكره ويجزيهم؛ لأنه بمنزلة سبع شياه حكماً، إلا أن يريد حين اشتراها أن يشركهم فيها فلا يكره، وإن فعل ذلك قبل أن يشتريها كان أحسن، وهذا إذا كان موسراً، وإن كان فقيراً معسراً فقد أوجب بالشراء فلا يجوز أن يشرك فيهاوكذا لو أشرك فيها ستّة بعْد ما أوجبها لنفسه لم يسعه لأنّه أوجبها كلها لِلَّهِ تَعَالَى وإن أشرك جاز ويضمن ستّة أسْباعها"

یعنی: اگر کسی نے قربانی کی نیت سے گائے خریدی پھر اس میں چھ افراد کو شریک کرلیا تو یہ مکروہ ہے اور سب کی قربانی ہوجائے گی، اس لئے کہ حکما یہ سات بکریوں کی طرح ہے،لیکن خریدتے وقت ہی دوسروں کو شامل کرنے کا ارادہ ہو تو مکروہ نہیں،اگر خریدنے سے پہلے ہی دوسروں کو شامل کرلے تو یہ بہتر ہے،اور یہ ساری صورت اس وقت ہے کہ خریدنے والا غنی ہو، اگر خریدنے والا فقیر ہو تو قربانی کی نیت سے جانور خریدتے ہی اس پر اسی جانور کی قربانی واجب ہوگئی اور اس میں کسی کو شامل کرنا ناجائز ہے اور ایسے ہی اگر فقیر وسعت نہ ہونے کے باوجود قرب الہی جل جلالہ کی نیت سے اپنے اوپر قربانی واجب کرلینے کے بعد چھ لوگوں کو شریک کرلے تو فقیر کی قربانی جائز ہوگی اور اس کو اس جانور کے شرکاء کے چھ حصوں کا تاوان دینا ہوگا۔(فتاوی عالمگیری،ج٥ کتاب الاضحیہ،باب فیما یتعلق بالشرکۃ فی الضحایا،ص ٣٧٦ 


بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں حضرت علامہ امام علاءالدین ابوبکر بن مسعود الکاسانی الحنفی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’ہذا محمول علی الغنی إذا اشتری بقرۃ لأضحیتہ؛ لأنہا لم تتعین لوجوب التضحیۃ۔۔۔ فأما إذا کان فقیرا فلا یجوز لہ أن یشرک فیہا؛ لأنہ أوجبہا علی نفسہ بالشراء للأضحیۃ فتعینت للوجوب‘‘ یعنی یہ عمل غنی کے لئے محمول ہے اس لیے کہ جب اس نے قربانی کے لئے جانور خریدا تو یہ جانور قربانی کے لیے متعین نہیں ہوتا باقی فقیر کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی اور کو شریک کرے اس لئے کہ اس نے اپنے نفس پر پوری گائے خریدتے وقت واجب کرلی ہے اور یہ قربانی کے لیے متعین ہوگئی ہے۔(بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،کتاب الاضحیۃ،ج٥ ص ٧٢،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)


ردالمحتار میں حضرت علامہ امام ابن عابدین شامی قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’ان نوی وقت الشراء الاشتراک صح استحساناً و الا لا استحساناً وفی الھدایہ :و الاحسن ان یفعل  ذلک قبل الشراء لیکون ابعد عن الخلاف و عن صورۃ الرجوع  فی القربۃ ۔و فی الخانیۃ :ولو لم ینو  عند الشراء ثم اشرکھم  فقد کرھہ ابو حنیفۃ‘‘ یعنی: اگر جانور خریدتے وقت دوسروں کو شریک کرنے کی نیت کی،تو استحساناً صحیح ہے ورنہ شریک کرنا استحساناً صحیح نہیں ہے اور ہدایہ میں ہے:بہتر یہ ہے کہ خریدنے سے پہلے یہ (دوسروں کو شریک کرنے  کا عمل )کرلے تاکہ اختلاف اور قربت میں رجوع کرنے کی صورت سے بچ جائے اور خانیہ میں ہے:اگراس نےخریداری  کے وقت  نیت نہیں کی ،پھر دوسروں کو شریک کیا ،تو امام اعظم علیہ الرحمۃ نے اسے مکروہ کہا ہے۔

(رد المحتار علی الدر المختار ،کتاب الاضحیۃ،ج٩ ٥٢٧)


 لھذا جانور خریدنے سے پہلے ہی دوسروں کو شریک کرنے کی نیت کرلی جاۓ تو یہ سب سے بہتر اور مناسب عمل ہے


واللہ تعالٰی جل جلالہ و رسولہ الاعلٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم اعلم بالصواب 


کتبہ: سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی نوری ارشدی 

شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند

بتاریخ  ٦ ذی الحجہ  ١٤٤٥ھ بمطابق  ١٣ جون  ٢٠٢٤ء بروز جمعرات




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney