سوال نمبر 2588
السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓدین ومفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ بستی میں ایک پریوار ہے جس کے سبھی مرد باپ,بیٹے کھولے طور پر سود کا اور سٹے کا دھندہ کرتے ہیں اس کے علاوہ دوسرا کوئی ذریعئہ آمدن نہیں اس پریوار کے ایک چھوٹے بیٹے کی شادی ہوئی جس کا نکاح مسجد کے موجودہ امام نے پڑھایا اور نکاح کے عوض امام صاحب نے ان سے نذرانہ لیا اور مسجد کمیٹی کی رسید کاٹ کر مسجد کمیٹی کے لیے بھی پیسے لیے,دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایسا شخص جو بستی میں کھلے عام سود کا دھندہ کرتا ہے اس کا نکاح پڑھانا اور نکاح کے بدلے امام کا اور مسجد کمیٹی کا پیسہ لینا قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا درست ہے؟
المستفتی :- عبد السلام
وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
سب سے پہلے تو یہ اچھی طرح جان لیجیے کہ سود کی حرمت نص قطعی سے ثابت ہے اور سود/بیاج کا کاروبار خواہ کھلے عام ہو یا پوشیدہ طور پر دونوں صورتوں میں قرآن و حدیث کی رو سے بالکل ناجائز و حرام اور سخت گناہ ہے,اس پر شدید وعیدیں بھی آئی ہیں سودی معاملہ لین دین دنیوی و اخروی تباہی و بربادی کا سبب ہے اور اس میں ذلت و رسوائی بھی ہے!
قرآن مجید میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:
وَاَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰواؕ
ترجمۂ کنزالایمان:’’اوراللہ تعالیٰ نےحلال کیابیع کواورحرام کیا سودکو۔‘‘
(پارہ٣،سورةالبقرة ،آیت ٢٧٥ )
اور مسند امام احمد بن حنبل ج ٤ ص ٢٢٣ کی حدیث مبارک میں سود کے ایک درہم کو حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم نے ٣٦ مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت گناہ قرار دیا ہے
لیکن سودی کاروبار والے کا نکاح پڑھانا اس کا نذرانہ و ہدیہ قبول کرنا مسجد کے لیے چندہ لینا اس کے وہاں کھانا پینا اس وقت جائز ہے جب تک کہ یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہوجاۓ کہ وہ بعینہ مال حرام سے نذرانہ یا چندہ دے رہا ہے یا کھانا کھلا رہا ہے کیوں کہ جب حلال و حرام دونوں مال ہوں اور غلبہ حلال مال کا ہو تو نذرانہ ہدیہ قبول کرنا جائز ہے لیکن اگر غلبہ حرام مال کا ہو تو پھر بچنا ہی اولی اور بہتر ہے چاہے امام ہو یا عوام!
الأشباہ و النظائر میں ہے:
"القاعدة الثانية من النوع الثاني: إذا اجتمع عند أحد مال حرام و حلال فالعبرة للغالب ما لم يتبين". ( الاشباہ والنظائر١/ ١٤٧)
فتاوی عالمگیری میں ہے: أھدی إلی رجل شیئا أو أضافہ إن کان غالب مالہ من الحلال فلا بأس إلا أن یعلم بأنہ حرام، فإن کان الغالب ھو الحرام ینبغي أن لا یقبل الھدیۃ ولا یأکل الطعام إلا أن یخبرہ بأنہ حلال ورثتہ أو استقرضتہ من رجل کذا في الینابیع۔ ولا یجوز قبول ھدیۃ أمراء الجور لأن الغالب في مالھم الحرمۃ إلا إذا علم أن أکثر مالہ حلال بأن کان صاحب تجارۃ أو زرع فلا بأس بہ؛لأن أموال الناس لا تخلو عن قلیل حرام فالمعتبر الغالب، وکذا أکل طعامھم‘‘
یعنی: اگر کوئی شخص کسی کو بطور ہدیہ کوئی چیز دے یا اس کی مہمان نوازی کرے تو اگر اس کا غالب مال حلال ہو تو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں جب تک کہ اسے معلوم نہ ہو کہ اس کا غالب حصہ حرام ہے اگر اکثر مال حرام ہو تو اسے چاہیے کہ وہ ہدیہ قبول نہ کرے اور نہ ہی کھانا کھائے۔ جب تک معلوم نہ ہوکہ یہ حلال ہے اور یہ کہ اس نے اسے وراثت میں حاصل کیا ہے یا اسے فلاں آدمی سے قرض لیا ہے,اور اسی طرح ینابیع میں مذکور یے کہ ظالم حاکموں سے ہدیہ لینا جائز نہیں، کیونکہ ان کے مال کی اکثریت حرام ہوتی ہے، جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ اس کا اکثر مال مباح ہے، مثلاً اگر وہ تاجر ہو یا کاشتکار، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔کیوں کہ لوگوں کے مال حرام کی قلیل و کثیر مقدار سے خالی نہیں ( یعنی حرام مال کم ہوگا یا زیادہ ) پس تو اس صورت میں اعتبار غلبہ کا ہوگا
اور یہی حکم ان کے ہاں کھانا کھانے کا ہوگا
(الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الکراھیۃ: الباب الثاني عشر في الھدایا والضیافات‘‘: ج۵، ص: ۳۴۲،)
سرکار اعلٰی حضرت فرماتے ہیں:"جائز بایں معنی تو ہے کہ کھاۓگا تو کوئی شئ حرام نہ کھائی جب تک معلوم نہ ہو کہ یہ شئ جو میرے سامنے آئی بعینہ حرام ہے۔بہ ناخذ مالم نعرف شیا حرام بعینہ نص علیہ محررالمذھب الامام محمد رحمہ اللہ تعالی کمافی الذخیرہ وغیرھا. مگر احتراز اولی خصوصاً جب کہ غالب حرام ہو خروجا عن الخلاف وکما فی ردالمحتار عن الذخیرۃ عن الامام ابی جعفر احب الی فی دینہ ان لا یاکل ویسعہ حکما ان لم یکن ذلک الطعام غصبا ورشوۃ "اھ(فتاوی رضویہ. ج.٩ ص. ١٠٦ )
اور ایک جگہ فرماتے ہیں"جس کا ذریعۂ معاشی صرف مال حرام ہے اس کے یہاں سے بچنا ہی اولی ہے۔ ”تحرزا عن الخلاف" مگر کوئی کھانا حرام نہیں جب تک کہ تحقیق نہ ہو کہ خاص یہ کھانا حرام سے ہے عملا باصل الحل ہاں یہ جدا بات ہے ایسے فاسقوں کے یہاں خلط ملط مناسب نہیں خصوصا ذی علم کو (فتاوی رضویہ ج ۹ نصف اول ص ۲۲۴)
حضرت علامہ امجد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: "جس نے ہدیہ بھیجا اگر اس کے پاس حلال و حرام دونوں قسم کے اموال ہوں مگر غالب مال حلال ہے تو اس کے قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں یہی حکم اس کے یہاں دعوت کھانے کا ہے اور اگر اس کا غالب مال حرام ہے تو نہ ہدیہ قبول کرے اور نہ اس کی دعوت کھائے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ یہ چیز جو اسے پیش کی گئی ہے حلال ہے"!
(بہار شریعت ج٣ ح ۱۵ ص ۳۹۴ب مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
وقارالفتاوی میں حضرت علامہ مفتی وقارالدین قادری علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: جس شخص کی آمدنی حلال و حرام دونوں طرح کی ہے اگر علیحدہ علحیدہ مال رکھے ہیں اور وہ حرام مال میں سے مسجد میں چند دیتا ہے یا مسلمانوں کی دعوت کرتا ہے تو وہ چندہ لینا اور دعوت کھانا حرام ہیں اگر حلال مال میں سے یہ کام کرتا ہے تو جائز ہے اگر دونوں قسم کی آمدنی ملائی گئ ہے اب حلال و حرام کو جدا نہیں کیا جاسکتا تو اس کا عطیہ چندہ وغیرہ جائز ہے فتاوی عالمگیری میں ہے: "اختلف الناس فی اخذالجائزة من السلطان قال بعضھم یجوز مالم یعلم انہ یعطیہ من حرام قال محمد رحمہ اللہ تعالٰی و بہ ناخذ مالم نعرف شیئا حرامًا بعینہ وھو قول ابی حنیفة رحمہ اللہ تعالٰی واصحابہ"( ج ٥ ص٣٤٢ مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ )
یعنی: بادشاہ سے انعام لینے میں لوگوں کا اختلاف ہے بعض نے کہا جائز ہے جب تک یہ معلوم نہ ہو وہ ( مال ) حرام سے دے رہا ہے امام محمد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اور ہمارا مسلک یہی ہے کہ جب تک ہم جان نہ لیں کہ وہ چیز حرام بعینہ ہے
امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے ساتھیوں کا بھی یہی قول ہے
( وقارالفتاوی ص ٣٢١۔٣٢٢ )
الانتباہ:- مذکروہ حکم شرعی امام و عوام دونوں کے لیے ہے صرف امام کی پکڑ کرنا اور خود کو اس سے بری سمجھنا سراسر غلط اور ناانصافی ہے!
واللہ تعالٰی جل جلالہ و رسولہ الاعلٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم اعلم بالصواب
کتبہ: سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی نوری ارشدی
شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند
١٧/ذوالحجہ١٤٤٥ ھ
٢٤/جون ٢٠٢٤ ء بروز پیر
0 تبصرے