آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

FD کی رقم پر قربانی کا وجوب

 سوال نمبر 2590


السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ زید ایک بینک پالیسی کے تحت ہر مہینے تین ہزار روپے جمع کرتا ہے,اسے تین سال تک جمع کرنا ہوگا تین سال سے پیشتر وہ پیسہ نہیں نکال سکتا,تین سال کے بعد اسے اختیار حاصل ہے وہ جب چاہے پیسے نکال لے,اب دریافت یہ ہے کہ اب تک زید نے اس بینک میں ایک لاکھ روپے جمع کر دیے ہیں اب اس پر قربانی واجب ہے یا نہیں ؟مفصل جواب عطا فرمائیں

المستفتی:جمال احمد، چھپرہ بہار



وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ 



الجواب بعون الملک الوھاب 


واضح رہے کہ قربانی واجب ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط ایام اضحیہ میں مالک نصاب ہونا ہے  اگر کسی کی ملک میں قربانی کے دنوں میں بقدر نصاب مال ہو تو اس پر قربانی واجب ہوگی ورنہ نہیں 

اور سوال میں مذکور ہے کہ زید نے اب تک بینک میں ایک لاکھ روپیہ جمع کروا دیا ہے اگرچہ اس پر زید کا قبضہ و تصرف نہیں لیکن اس کی ملک تو ہے اس لیے اس پر قربانی واجب ہوگی


اور یہ بات کہ تین سال پیشتر پیسہ نہیں نکال سکتے درست ہے کیوں کہ بینک پالیسی میں جو رقم FD وغیرہ کے تحت جمع کروائی جاتی ہے وہ مدت مقررہ سے پہلے نہیں ملتی لیکن اگر ضرورت کے پیش نظر لینا چاہیں تو بینک منافع میں کمی کرکے مالک کو اس کی اصل رقم لوٹا دیتا ہے لھذا زید پر لازم ہے بینک سے پیسہ لیکر قربانی کرے پا پھر کس سے قرض لیکر کرے بہرحال قربانی واجب ہوگی!


البتہ اگر ایسی صورت ہو کہ قربانی کے دنوں میں کسی صورت رقم ملنا ممکن نہ ہو اور نہ اس کے پاس کوئی اور مالیت حاجت اصلیہ سے زائد بقدر نصاب ہو جس سے وہ قربانی کا جانور خرید سکے تو قربانی واجب نہیں اور اس صورت میں نہ قرض لیکر قربانی کرنا ضروری ہے نہ پیسہ ملنے کے بعد جانور کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے! 


جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ولو کان علیہ دین بحیث لو صرف فیہ نقص نصابہ لا تجب وکذا لو کان لہ مال غائب لا یصل إلیہ فی أیامہ‘‘ترجمہ:اگر کسی شخص پر اتنا دَین ہو کہ وہ اپنا مال اس دَین کی ادائیگی میں صرف کرے، تو نصاب باقی نہ رہے تواس پر قربانی نہیں ہے ۔ اسی طرح جس شخص کامال اس کے پاس موجود نہیں اور قربانی کے ایام میں وہ مال اسے ملے گا بھی نہیں(بلکہ ایام قربانی کے بعد ملے گاتواس پر بھی قربانی واجب نہیں)۔(فتاوی عالمگیری،کتاب الاضحیۃ ،ج٥،ص٢٩٢)


فتاوی بزازیہ میں ہے:’’لہ دین حال علی مقر ولیس عندہ مایشتر یھا بہ لایلزمہ الاستقراض ولا قیمۃ الاضحیۃ اذا وصل الدین الیہ ولکن یلزمہ ان یسال منہ ثمن الاضحیۃ اذا غلب علی ظنہ انہ یعطیہ ‘‘ترجمہ: صاحب نصاب کا کسی ایسے شخص پر قرض فوری ہے ، جس کاوہ اقرار کرتاہے اور اس کے پاس کوئی ایسی شے نہیں کہ جس سے وہ قربانی کے لیے جانور خرید سکےتو اس پر قربانی کے لیے قرض لینالازم نہیں اور نہ ہی قرض واپس ملنے پر قربانی کے جانور کی قیمت صدقہ کرنالازم ہے ،لیکن اس کے لیے قربانی کی قیمت جتنی رقم کاسوال کرنا اس کے لیےلازم ہے ، جبکہ اس کوظن غالب ہو کہ وہ دے دے گا۔(فتاوی بزازیہ،ج٢،ص٤٠٦،قدیمی کتب خانہ،کراچی)


بہار شریعت میں حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:"اس شخص پر دین ہے اور اس کے اموال سے دین کی مقدار مجرا کی جائے تو نصاب نہیں باقی رہتی اس پر قربانی واجب نہیں اور اگر اس کا مال یہاں موجود نہیں ہے اور ایام قربانی گزرنے کے بعد وہ مال اسے وصول ہوگا تو قربانی واجب نہیں"(بہار شریعت ج ٢ ح ١٥ ص  ٨٣)


الانتباہ :- بینک میں جمع شدہ رقم اگرچہ تین یا پانچ سال کے بعد ملنے والی ہو جب بھی قربانی واجب ہے کیوں کہ تین یا پانچ سال کی جو مدت ہے اس مدت پر مکمل اضافہ کے ساتھ رقم ملتی ہے جبکہ بصورت دیگر پہلے لینا چاہیں جب بھی بینک سے رقم ملےگی البتہ اضافہ کے ساتھ نہیں ملےگی پس ایسی صورت میں قربانی واجب ہوگی!  


واللہ تعالٰی جل جلالہ و رسولہ الاعلٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم اعلم بالصواب 


کتبہ: سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی نوری ارشدی 

شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الہند 

٨ ذو الحجہ؁١٤٤٥ھ

 ١٥/جون؁٢٠٢٤ء 

بروز ہفتہ




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney