سوال نمبر 2592
السلام علیکم ورحمت اللہ تعالیٰ وبرکاتہ
الاستفتاء: کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے ساتھ حج کرنے گئی اور وہاں اس کے شوہر کا انتقال ہوگیا تو اس عورت کی عدت کی کیا صورت ہوگی؟
دلائل کی روشنی میں واضح فرما کر ہماری رہنمائی فرمائیں۔
المستفتی: دلنواز رضوی۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب: صورت مسئولہ وہ عورت عدت وفات کی وجہ سے محصرہ نہیں ہوگی کیونکہ فقہاء کرام نے تصریح فرمائی ہے کہ عورت اگر اپنے شوہر یا کسی اور محرم کے ساتھ حج پر گئی اور وہاں اس کے محرم کا انتقال ہوگیا تو وہ عورت محصرہ نہیں ہوگی اس کے لئے حکم یہ ہے کہ وہ ارکان حج مکمل کرے اور اس کے بعد وہیں مکہ معظمہ میں اپنی عدت پوری کرے۔ لیکن recently (آج کل) چونکہ سعودی حکومت کے نظامِ آمد ورفت کے اعتبار سے ویزہ ڈیٹ پوری ہونے پر وہاں سے سفر کرنا ضروری ہے اس لیے وہاں رہ کر عدت پوری کرنا ایک مشکل امر ہے۔ اس لیے فقہاء کرام نے دفع حرج اور مشقت کی بنا پر فرمایا کہ فلائٹ کی واپسی تک مکہ شریف میں ہی عدت گزارے اور عدت کے بقیہ دن اپنے وطن میں آکر گزارے۔
علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:
"فلو أحرمت و ليس لها محرم و لا زوج فهي محصرة كما في“اللباب” و “البحر”. ثم هذا إذا كان بينها و بين مكة مسيرة سفر و بلدها أقل منه أو أكثر لكن يمكنها المقام في موضعها وإلا فلا إحصار فيما يظهر“اھ......
ترجمہ: اگر عورت نے احرام باندھ لیا، اور اس کے ساتھ محرم یا شوہر نہیں ہے تو وہ محصرہ ہے جیسا کہ “لباب” اور “بحر الرائق” میں ہے، یہ حکم اس وقت ہے جبکہ وہاں سے مکہ معظمہ کی مسافت شرعی مسافت پر ہو اور اس کے شہر کی مسافت کم ہو، یا زیادہ ہو، لیکن وہاں اس کے لیے ٹھہرنا ممکن ہو اور اگر یہ صورتیں نہ ہوں تو احصار نہیں، یہی ظاہر ہے۔
(ردالمحتار مع درمختار، کتاب الحج، باب الاحصار، جلد ٤، صفحہ ٣/٤، مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ، بیروت)۔
سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ:
"اور اگر شوہر ومحرم نہیں رکھتی تو اگر اتنی دور پہنچ گئی کہ مکہ معظمہ تک مدت سفر نہیں مثلا جدہ پہنچ گئی تو اب چلی جائے اور واپس نہ ہو کہ واپسی میں سفر بلا محرم ہے اور وہ حرام ہے۔”وکانت کمن أبانھا زوجھا أو مات عنھا ولو في مصر ولیس بینھا وبین مصرھا مدۃ سفر رجعت ولوبین مصرھا مدۃ وبین مقصدھا أقل مضت“ ترجمہ: مثلا اس عورت کو خاوند نے طلاق بائن دے دی یا وہ فوت ہوگیا اگر وہ شہر تھا اور اس عورت اورا س کے وطن کے درمیان مدت سفر نہیں تو وہ عورت لوٹ آئے اور اگر اس کے وطن کے لیے مدت سفر ہو او رمقصد کے لیے مدت سفر کم ہو تو سفرجاری رکھے۔
پھر بعد حج مکہ معظمہ میں اقامت کرے بلا محرم گھر کو واپس آنا بلکہ مدینہ طیبہ کی حاضری ناممکن ہے، یہ وہ عورت ہے جس نے خود اپنے آپ کو بلا میں ڈالا، اس کے لیے چارہ کار نہیں مگر یہ کہ اس کا کوئی محرم جا کر اسے لائے، یوں کہ اس سال وہ جانا چاہتا تھا اس سال گیا یا یوں کہ اس سال تک اس کا کوئی محرم نابالغ تھا اب بالغ ہوا اور لاسکتا ہے، اور یہ بھی نہ ہو تو چارہ کار نکاح ہے نکاح کرے پھر شوہر کے ساتھ چاہے واپس آئے یا وہیں مقیم رہے، اور اگر دونوں طرف مدت سفر ہے توبلا سخت تر ہے اور جانا یا آنا کوئی بھی بے گناہ نہیں ہوسکتا، مگربہ حصول محرم یا تحصیل شوہر، شوہر کے قبضے میں اگر ہمیشہ رہنا نہ چاہے تو اس کا یہ علاج ہے کہ اس شرط پر نکاح کرے کہ میرا کام میرے ہاتھ میں رہے گا جب چاہوں اپنے آپ کو طلاق بائن دے لوں، اور اگر یہ بھی ناممکن ہو تو سب طرف سے دروازے بند ہیں پوری مضطرہ ہے، اگر ثقہ معتمدہ عورتیں واپسی کے لیے ملیں تو مذہب امام شافعی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ پر عمل کر کے ان کے ساتھ واپس آئے، اور جانے کے لیے ملیں تو انکے ساتھ جائے انھیں کے ساتھ واپس آئے کہ تقلید غیر عند الضرروۃ بلا شبہہ جائز ہے۔ “(فتاوی رضویہ، کتاب الحج، جلد ١٠، صفحہ ٧١٤/٧١٥، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)۔
"فتاوی علیمیہ ہے کہ:
”ایسی عورت کے لئے اصل حکم تو یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں جس مکان میں سکونت کے دوران بیوہ ہوئی اس میں عدت وفات پوری کرے۔۔۔۔ مگر آج کل سعودی حکومت کے نظام آمد و رفت کے پیش نظر مدینہ منورہ میں رہے کر عدت پوری کرنا نہایت دشوار ہے اور اپنے وطن آنے میں بھی سخت مشقت ہے لہذا بوجہ دفع حرج و مشقت وہ عورت مکہ مکرمہ جا کر حج ادا کرے اور اگر بعد حج ممکن ہو تو وہیں پر ورنہ بصورت مجبوری اپنے وطن پہلے جس جگہ پہنچ کر عدت گزارنا آسان ہو وہاں گزارے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو اب بوجہ ضرورت شوہر کے گھر عدت پوری کرے۔
(فتاوی علیمیہ، حج کا بیان، جلد١، صفحہ ٤٨٤/٤٨٥، مطبوعہ: شبیر برادرز)۔
کتبه: عبد الوکیل صدیقی نقشبندی پھلودی راجستھان.
خادم: الجامعۃ الصدیقیہ سوجا شریف باڑمیر راجستھان.
١١ محرم الحرام ١٤٤٥ بروز جمعرات
0 تبصرے