آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

ہنودہند کو قرض دے کر سود لینا کیسا

 سوال نمبر 2594


السلام علیکم و رحمۃ للہ و برکاتہ

 کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہندوستان کے غیر مسلم کو قرض دے کر اس سے سود لینا کیسا ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔


المستفتی: حسین خان راجستھان۔



وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 

الجواب بعون الملک الوھاب:  یہاں کے کفار حربی ہیں اور حدیث شریف میں لا ربوا بین المسلم والحربی۔ اس لیے حربی کافر کو قرض دے کر اس سے زائد رقم لینا سود سمجھے بغیر جائز ہے۔


امام اہلسنت سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ:

جو کافر نہ ذمی ہو نہ مستأمن سوا غدر اور بد عہدی کے کہ مطلقاً ہر کافر سے بھی حرام ہے باقی اس کی رضا سے اس کا مال جس طرح ملے جس عقد کے نام سے ہو مسلمان کے لیے حلال ہے۔

(فتاویٰ رضویہ شریف، جلد ١٧، صفحہ ٣٤٨، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاھور)۔

حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ: 

"سود حرام ہے قال اللہ تعالی وحرم الربوا ہاں کُفَّار غیر ذمی سے جو مال بغیر غدر حاصل ہو وہ حلال ہے اور وہ سود نہیں اگر چہ وہ کافر سود کہہ کر دیتا ہو مگر اس لینے والے کو چاہیئے کہ اسے سود نہ سمجھے کیونکہ سود کے لئے مال معصوم شرط ہے۔ اور ان کے اموال مباح ہے۔

(فتاوی امجدیہ، جلد ٣، صفحہ ٢٠٥، مطبوعہ: مکتبہ رضویہ کراچی)"۔



کتبه: عبد الوکیل صدیقی نقشبندی پھلودی راجستھان الھند 

خادم: الجامعۃ الصدیقیہ سوجا شریف باڑمیر راجستھان الھند 

٢٠ محرم الحرام ١٤٤٦ھجری۔ ٢٧ جولائی ٢٠٢٤عیسوی۔ بروز ہفتہ۔




ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney