سوال نمبر 2603
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓدین ومفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ زید کا وطن اصلی داہود ہے لیکن وہ اپنے وطن کو ترک کرکے مع اہل خانہ 150 کلو میٹر کی مسافت پر واقع شہر بروڈہ منتقل ہوگیا ہے اور یہاں اس نے مستقل طور پر رہائش بھی اختیار کرلی ہے لیکن زید کے رشتےدار اور اس کا مکان زمین وغیرہ اس کے پہلے والے وطن میں ہیں دریافت طلب امر یہ ہے کہ اب اگر زید بروڈہ سے اپنے شہر داہود آتا ہے اور پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت کرتا ہے تو کیا اس صورت میں اس پر نماز قصر ادا کرنا لازم ہوگی یا پوری ادا کرےگا جواب عنایت فرمائیں!
المستفتی: سید محمد ذیشان اشرفی سہروردی
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
دریافت کردہ صورت میں زید جب بھی داہود آۓگا اور پندرہ دن سے کم رکنے کی نیت کرےگا تو نماز میں قصر کرےگا اور اگر پندرہ دن کی نیت کرےگا تو نماز مکمل ادا کرےگا!
کیوں کہ وطن اصلی اپنی مثل دوسرے وطن اصلی سے باطل ہو جاتا ہے اور صورت مذکورہ میں زید نے اپنا وطن اصلی ترک کرکے مع اہل خانہ بروڈہ منتقل ہوکر مستقل طور پر سکونت اختیار کرلی ہے جو شہر داہود سے 150 کلو میٹر کی مسافت پر ہے اس لیے شہر داہود اس کے لیے اب وطن اصلی نہ رہا لھذا زید جب بھی شہر داہود آۓگا اور پندرہ دن سے کم رکنے کی نیت کرےگا تو شرعاً مسافر ہوجاۓگا اور چار رکعت والی نمازیں قصر ادا کرےگا
چنانچہ البحرالرائق میں حضرت علامہ زين الدين بن إبراهيم بن محمد الشهير بابن نجيم الحنفي المصری المتوفى: ٩٧٠ھ فرماتے ہیں: والوطن الأصلي هو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها دارا وتوطن بها مع أهله وولده، وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها وهذا الوطن يبطل بمثله لا غير، وهو أن يتوطن في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها فيخرج الأول من أن يكون وطنا أصليا حتى لو دخله مسافرا لا يتم۔۔۔ولو كان له أهل بالكوفة، وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة قيل البصرة لا تبقى وطنا له؛ لأنها إنما كانت وطنا بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطنا له
یعنی : انسان کا وطن اصلی وہ ہے جہاں اس کی پیدائش ہوئی ہو یا وہاں اس نے اپنے اہل خانہ سمیت مستقل طور پر رہائش اختیار کرلی ہو اور کہیں دوسری جگہ جانے کا ارادہ نہ ہو وطنِ اصلی فقط اپنی مثل وطنِ اصلی ہی سے باطل ہوتا ہےاور اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے شہر کو اپنا وطن بنالے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ اپنے وطنِ اصلی سے اس دوسرے شہر کی طرف منتقل ہوجائے، تو اس صورت میں وہ پہلا شہر وطنِ اصلی ہونے سے نکل جائے گا، یہاں تک کہ جب وہ شخص سفر کرتے ہوئے اپنے اس پہلے شہر میں داخل ہوگا ،تو نماز چار رکعت نہیں پڑھےگا۔۔۔اور اگر کسی کے اہل و عیال کوفہ اور بصرہ میں،ہوں اور پھر اس کے اہل خانہ بصرہ میں فوت ہوگۓ اور بصرہ میں اس کے پاس مکان اور جائیداد رہ گئی، تو اس بارے میں کہا گیا کہ بصرہ اس کا وطن نہیں رہے گا۔ کیوں کہ یہ گھر والوں سے وطن تھا نہ کہ جائیداد سے۔کیا آپ نہیں جانتے کہ اگر کوئی کسی جگہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ سکونت اختیار کرلے اگرچہ وہاں اس کا گھر نہ ہو پھر بھی وہ اس کے لیے وطن اصلی ہو جاتا یے ۔(البحرالرائق ، كتاب الصلاة ، باب المسافر ،ج:٢،ص:٢٣٩)
بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں حضرت علامہ امام علاءالدین ابوبکر بن مسعود بن احمد بن کاسانی الحنفی المتوفى ٥٨٧ھ فرماتے ہیں
: ”فالوطن الأصلی ينتقض بمثله لا غير وهو: أن يتوطن الإنسان في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها من بلدته فيخرج الأول من أن يكون وطناً أصلياً، حتى لو دخل فيه مسافرا لا تصير صلاته أربعاً“ یعنی: وطنِ اصلی فقط اپنی مثل وطنِ اصلی ہی سے باطل ہوتا ہےاور اس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے شہر کو اپنا وطن بنالے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ اپنے وطنِ اصلی سے اس دوسرے شہر کی طرف منتقل ہوجائے، تو اس صورت میں وہ پہلا شہر وطنِ اصلی ہونے سے نکل جائے گا، یہاں تک کہ جب وہ شخص سفر کرتے ہوئے اپنے اس پہلے شہر میں داخل ہوگا ،تو نماز چار رکعت کی نہیں ہو گی (یعنی قصر کرے گا۔)(بدائع الصنائع، کتاب الصلوٰۃ، ج ١، ص ٣٣٩دار الحدیث ،قاھرہ)
فتح القدیر میں حضرت علامہ کمال الدین محمد بن عبدالواحد السواسی المعروف بہ ابن الہمام المتوفی ٨٦١ھ فرماتے ہیں
(ومن كان له وطن فانتقل عنه واستوطن غيره ثم سافر ودخل وطنه الأول قصر) لأنه لم يبق وطنا له
یعنی: جو اپنے وطن اصلی سے منتقل ہوجاۓ اور دوسری جگہ اپنا وطن بنا لے اور پھر سفر کرتا ہوا پہلے وطن میں آۓ تو نماز قصر ادا کرےگا کیوں کہ اب پہلا اس کے لیے وطن نہ رہا
( كتاب الصلوٰۃ، باب صلوٰۃ المسافر، ص:٤٣، ج:٢،دار الفکر)
حضرت علامہ شامی قادری نقشبندی علیہ الرحمہ المتوفی ١٢٥٢ھ فتاوٰی شامی میں نقل فرماتے ہیں:”قال فی النهر: ولو نقل أهله ومتاعه وله دور فی البلد لا تبقى وطنا له، وقيل تبقى، كذا فی المحيط وغيره“ ترجمہ: صاحبِ نہر نے فرمایا: اگر کوئی شخص اپنے اہل وسامان کو اس پہلی جگہ سے منتقل کرلے، لیکن اس شہر میں اس کا گھر موجود ہو، تو اس صورت میں وہ پہلا شہر اس شخص کے لیے وطنِ اصلی نہ رہے گا اور ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ شہر بھی وطنِ اصلی رہے گا، جیسا کہ محیط وغیرہ میں مذکور ہے۔“(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج ٢، ص ٧٣٩ مطبوعہ کوئٹہ)
مذکورہ بالا عبارات کے تحت امام اہلسنت سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمۃ جد الممتار میں نقل فرماتے ہیں:”قولہ:(لو نقل اھلہ و متاعہ ولہ دور فی البلد لا تبقی وطناً لہ و قیل تبقی)والیہ اشار محمد فی الکتاب کذا فی الزاھدی،ھندیہ،اقول یظھر للعبد الضعیف ان نقل الاھل والمتاع یکون علی وجھین احدھما ان ینقل علی عزم ترک التوطن ھاھنا،والآخر:لا علی ذلک ،فعلی الاول لا یبقی الوطن وطنا وان بقی لہ فیہ دور وعقار،وعلی الثانی یبقی “
یعنی: مصنف علیہ الرحمۃ کاقول(اگرکوئی شخص اپنےاہل وسامان کومنتقل کردے اور اس شہر میں اس کا گھر ہو،وہ شہر اس کے حق میں وطن اصلی نہ رہےگا اور کہا گیا وطن اصلی رہےگا) اسی طرف امام محمد علیہ الرحمۃ نے کتاب میں اشارہ کیا،اسی طرح زاہدی میں ہے "ہندیہ"۔میں کہتا ہوں بندہ ناچیز پر آشکار ہوا کہ اہل اور سامان کو نقل کرنادوصورتوں پرہے،ایک تویہ کہ اس شہرسےرہائش ختم کرنےکے ارادہ سےاہل وسامان نقل کیاجائے،دوسری صورت یہ کہ رہائش ختم کرنےکاارادہ نہ ہو،پس پہلی صورت میں وہ شہر وطن اصلی نہ رہےگا،اگرچہ وہاں گھراورجائیدادہو،اوردوسری صورت میں وطن اصلی رہےگا۔(جد الممتار، کتاب الصلاۃ، ج٣3،ص٥٧٢، مکتبۃ المدینہ، کراچی)
حضرت مفتی وقار الدین علیہ الرحمۃ سے سوال ہوا کہ”ایک شخص نے اپنے آبائی گاؤں سے ایک ہزار میل دور ملازمت اختیار کی اور مع اہل و عیال سکونت پذیر ہوگیا۔ جب کسی کام سے آبائی گاؤں جاتا ہے، اگر وہاں پندرہ دن سے کم رہنے کی نیت کرے ،تو آیا نماز قصر پڑھے گا یا پوری؟“ آپ علیہ الرحمۃ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”جب گاؤں سے سکونت ترک کرکے دوسری جگہ سکونت اختیار کرلی اور مع اہل و عیال کے یہاں رہنے لگا، تو اُس جگہ مقیم ہوگیا۔ گاؤں میں مکان اور رشتے داروں کے ہونے سے یہ وہاں کا باشندہ شمار نہ ہوگا۔ لہذا جب پندرہ دن کے رہنے کے ارادے سے گاؤں جائے گا، تو نماز پوری پڑھےگا۔ اس سے کم رہنے کے ارادہ سے جائےگا، تو قصر پڑھے گا۔ آتے جاتے راستے میں بہر حال قصر پڑھے گا ۔“(ملخصاً از وقارالفتاوی،ج٢،ص١٤١،بزم وقار الدین، کراچی)
واللہ تعالٰی عز و جل و رسولہ الاعلٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم اعلم بالصواب
کتبہ: سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی نوری ارشدی
شاہی دارالقضاء و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند
بتاریخ ١٦ صفرالمظفر ١٤٤٦ھ
مطابق ٢٢ اگست ٢٠٢٤ء
بروز جمعرات
0 تبصرے