سوال نمبر 2604
السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ زید قربانی کے دنوں میں صاحب نصاب تھا لیکن اس نے اپنی طرف سے قربانی کرنے جگہ حضرت عباس علمبردار رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نام سے کردی تو کیا صورت مذکورہ میں اس کی قربانی ادا ہوئی یا نہیں؟ جواب عنایت فرمائیے
المستفتی: سید محمد آفتاب گودھرا گجرات
وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
زید صاحب نصاب تھا اور اس نے اپنی طرف سے قربانی کرنے جگہ حضرت عباس علمبردار رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نام سے کردی تو اس کا واجب ادا ہو گیا کیوں کہ اضحیہ ( قربانی کا جانور ) ملک ذابح یعنی زید کی ملک پر واقع ہوا۔ اور حضرت عباس علمبردار رضی اللہ تعالٰی عنہ کے لیے ایصال ثواب ہوا لھذا بیان کردہ صورت میں زید سے واجب ساقط ہو گیا اگرچہ اس نے حضرت عباس علمبردار رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مبارک نام سے کردی ہو
جیساکہ فقیہ النفس فخرالاسلام شمس الائمہ الاوزجندی المعروف قاضی خان المتوفى ٥٩٣ھ علیہ الرحمہ فتاوی قاضی خان میں فرماتے ہیں:’’ ولو ضحی عن المیت من مال نفسہ بغیر امر المیت جاز،ولہ ان یتناول منہ ولا یلزمہ ان یتصدق بہ،لانھا لم تصر ملکاً للمیت بل الذبح حصل علی ملکہ،ولھذا لو کان علی الذابح اضحیۃ سقطت عنہ‘‘
یعنی: اگر کسی نےاپنے مال سے میت کی طرف سے بغیر اس کی وصیت کے قربانی کی تو یہ جائز ہےاور اس ذبح کرنے والے کے لیے اس قربانی میں سے کھانا، جائز ہے اور اس گوشت کو صدقہ کرنا لازم نہیں، کیونکہ وہ میت کی ملک نہ ہوئی، بلکہ قربانی ذبح کرنے والے کی ملک پر ہوئی، لہذا اگر ذبح کرنے والے پر قربانی واجب تھی ،تو اس سے واجب ساقط ہو گیا۔(فتاوی قاضی خان،کتاب الاضحیۃ،ج٣،ص٢٣٩،مطبوعہ کراچی)
حضرت علامہ شامی قادری نقشبندی المتوفٰی ١٢٥٢ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’ لو ضحی عن میت وارثہ بامرہ الزمہ بالتصدق بھا وعدم الاکل منھا،وان تبرع بھا عنہ لہ الاکل لانہ یقع علی ملک الذابح والثواب للمیت،لھذا لو کان علی الذابح واحدۃ سقطت عنہ اضحیتہ کما فی الاجناس،قال الشرنبلالی:لکن فی سقوط الاضحیۃ عنہ تامل۔۔ اقول:صرح فی فتح القدیر فی الحج عن الغیر بلا امر انہ یقع عن الفاعل فیسقط بہ الفرض عنہ وللآخر الثواب فراجعہ‘‘
یعنی: اگر وارث نے میت کے حکم سے اس کی طرف سے قربانی کی تو اس پر لازم ہے کہ اسے صدقہ کردے اور اس میں سے نہ کھائے،اور اگر وارث میت کے حکم کے بغیر تبرعاً اس کی طرف سے قربانی کرے ،تو اس کے لیے اس میں سے کھانا ،جائز ہے، کیونکہ یہ قربانی ملکِ ذابح پر واقع ہوئی ہے اور میت کے لیے ثواب ہے،اور اسی لیے اگر ذابح پرایک قربانی لازم ہو، تو ساقط ہو جائے گی جیسا کہ اجناس میں ہے۔علامہ شرنبلالی نے فرمایا:لیکن اس سے قربانی کے ساقط ہونے میں تامل ہے۔میں(علامہ شامی)کہتا ہوں:علامہ ابن ہمام نے فتح القدیر میں حج عن الغیر بلاامر کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ فاعل کی طرف سے واقع ہوگا اور اس سے اس کا فرض ساقط ہو جائے گا اور اس دوسرے شخص کے لیے اس حج کا ثواب ہے،تو اس کی جانب رجوع کرو۔(رد المحتارمع الدرالمختار،کتاب الاضحیہ،ج٩،ص٥٥٤،مطبوعہ کوئٹہ)
ردالمحتار میں ہے:’’ من ضحی عن المیت یصنع کما یصنع فی اضحیۃ نفسہ من التصدق والاکل والاجر للمیت والملک للذابح وقال الصدر والمختار انہ ان بامر المیت لا یاکل منھا والا یاکل،بزازیہ‘‘
یعنی: اگر میت کی طرف سے قربانی کی تو صدقہ اور کھانے میں اپنی ذاتی قربانی والا معاملہ کیا جائے اور اجر وثواب میت کے لیے ہوگا اور ملکیت ذبح کرنے والے کی ہوگی، فرمایا صدر نے کہ مختاریہ ہے کہ اگر قربانی میت کی وصیت پر کی تو خود نہ کھائے، ورنہ کھائے۔ بزازیہ۔(ردالمحتار مع الدرالمختار،کتاب الاضحیۃ،ج ٩،ص٥٤٠،مطبوعہ کوئٹہ)
البتہ اگر کسی مرحوم نے وصیت کی تھی کہ "میری جانب سے قربانی کر دینا" اور اس نے کردی تو اس صورت میں قربانی کا گوشت نہ خود کھا سکتا ہے نہ کسی غنی کو دے سکتا کہ بلکہ اس پر لازم ہے کہ پورا گوشت فقیروں میں تقسیم کردے
جیسا کہ سیدی سرکار اعلی حضرت المتوفٰی ١٣٤٠ھ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اگر میت کی طرف سے ( قربانی ) بحکم میت کرے تو وہ سب تصدق کی جاۓ ( فتاوی رضویہ کتاب الاضحیہ ج ٢٠ ص ٤٥٥ )
الانتباہ:- صاحب نصاب اگر اپنے نام سے قربانی کرنے کی بجاۓ کسی زندہ شخص کی طرف سے کردے تو اس قربانی سے اس کا اپنا وجوب ادا نہ ہوگا بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے نام سے قربانی کرے اگر دوسرے کی جانب سے کرنا چاہے تو اس کا الگ سے انتظام کرے
واللہ تعالٰی جل جلالہ و رسولہ الاعلٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم اعلم بالصواب
کتبہ: سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی نوری ارشدی
شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند
بتاریخ ١٧ صفرالمظفر ١٤٤٦ھ
بمطابق ٢٣ اگست ٢٠٢٤ء
بروز جمعہ
0 تبصرے