سوال نمبر 2663
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کہ بارے میں نماز عیدالاضحی سے پہلے قربانی کرنا کیسا ہے قرآن وحید کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی
المستفتی محمد بابر علی صابری
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
شہر میں نماز عید الاضحی سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں ہے لیکن دیہات میں دسویں ذی الحجہ کو بعد نماز فجر قربانی کرنا جائز ہے ـ
بلکہ طلوع صبح صادق ہی سے جائز ہے لیکن مستحب یہ ھیکہ سورج طلوع ہونے کے بعد قربانی کرے ـ
جیساکہ حضور صدرالشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ ـ
شہرمیں قربانی کی جائے تو شرط یہ ہے کہ نماز ہوچکے لہٰذا نماز عید سے پہلے شہر میں قربانی نہیں ہوسکتی اور دیہات میں چونکہ نماز عید نہیں ہے یہاں طلوع فجر کے بعد سے ہی قربانی ہوسکتی ہے اور دیہات میں بہتر یہ ہے کہ بعد طلوع آفتاب قربانی کی جائے اور شہر میں بہتر یہ ہے کہ عید کا خطبہ ہوچکنے کے بعد قربانی کی جائے۔
یعنی نماز ہوچکی ہے اور ابھی خطبہ نہیں ہوا ہے اس صورت میں قربانی ہو جائے گی مگر ایسا کرنا مکروہ ہے ـ
بحوالہ بہار شریعت حصہ پانزدہم صفحہ ۳۳۹
درمختار میں ہے ـ
اول وقتھا بعد الصلاۃ ان ذبح فی مصر وبعد طلوع فجر یوم النحر ان ذبح فی غیرہ ـ اھ ملخصا"
اور فتاوی قاضی خان میں ہے ـ
فاما اھل السواد والقری والربا طات عندنا یجوز لھم التضحیۃ بعد طلوع الفجر الثانی من الیوم العاشر من ذی الحجۃ ـ اھ
اور فتاوی علمگیری جلد اول مصری صفحہ ۲۶۰میں ہے ـ
والوقت المستحب للتضحیۃ فی حق اھل السواد بعد طلوع الشمس وفی حق اھل المصر بعد الخطبۃ کذا فی الظھیریۃ ـ اھ
ماخوذ فتاوی فیض الرسول جلد دوم صفحہ ۳۹۱
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ " احقر العباد محمد مشاہدرضا قادری واسطی
0 تبصرے