سوال نمبر 26
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُه
سوال حضرات مفتیان کرام فرمائیں کہ؛ کیا ہر عالم فتوی دے سکتاہے ہے ؟
سائل محمد ذیشان قادری متعلم مدرسہ اہلسنت قادریہ صدیقیہ منھاج القران رضانگر دولتپور گرانٹ گونڈہ
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب اگر عا لم سے مراد سند یافتہ ہونا ہے تو ہرعالم فتوی نہیں دے سکتا کیونکہ بہت سے سند یافتہ ہیں جو علم نہیں رکھتے ان کو فتوی دینا جائز نہیں اور ان سے پوچھنا بھی ناجائز ہے کیونکہ علم والوں سے پوچھنے کا حکم ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے
فَسۡئَلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ﴿ۙسورہ نحل۴۳﴾
ترجمہ تو اے لوگو! علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں.
یادرہے کہ جسے علم نہ ہو اسے فتوی نہیں دینا چاہئے کیونکہ بغیر علم کے فتوی دینے کے سبب وہ گنہگار ہوگا جیسا کہ حدیث شریف میں ہے
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ يَعْنِي ابْنَ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أَفْتَى. ح وحَدَّثَنَاسُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي نُعَيْمَةَ، عَنْأَبِي عُثْمَانَ الطُّنْبُذِيِّ رَضِيعِ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ أُفْتِيَ بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ ، زَادَ سُلَيْمَانُ الْمَهْرِيُّ فِي حَدِيثِهِ: وَمَنْ أَشَارَ عَلَى أَخِيهِ بِأَمْرٍ يَعْلَمُ أَنَّ الرُّشْدَ فِي غَيْرِهِ فَقَدْ خَانَهُ، وَهَذَا لَفْظُ سُلَيْمَانَ
ترجمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے فتوی دیا اور سلیمان بن داود مہری کی روایت میں ہے جس کو بغیر علم کے فتوی دیا گیا۔ تو اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہو گا سلیمان مہری نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ جس نے اپنے بھائی کو کسی ایسے امر کا مشورہ دیا جس کے متعلق وہ یہ جانتا ہو کہ بھلائی اس کے علاوہ دوسرے میں ہے تو اس نے اس کے ساتھ خیانت کی (ابوداؤد ۳۶۵۷)
اور دوسری حدیث میں ہے کہ جو بغیر علم کے فتوی دے اس پر آسمان وزمین کے فرشتے لعنت کرتے ہیں(اسے ابن عساکر نے امیر المومنین رضیﷲتعالٰی عنہ سے روایت کیا) ( کنزالعما ل بحوالہ ابن عساکر حدیث ۲۹۰۱۸)
اور اگر عالم سے مراد اہل علم حضرات ہیں تو بیشک وہ فتوی دے سکتے ہیں اگر چہ مفتی کی سند نہ ہو جیسا کہ سرکار اعلی حضرت رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں کہ سندکوئی چیز نہیں، بہتیرے سندیافتہ محض بے بہرہ ہوتے ہیں اور جنہوں نے سند نہ لی اُن کی شاگردی کی لیاقت بھی ان سند یا فتوں میں نہیں ہوتی، علم ہوناچاہئے اور علم الفتوٰی پڑھنے سے نہیں آتا جب تک مدتہا کسی طبیب حاذق کا مطب نہ کیاہو مفتیان کامل کے بعض صحبت یافتہ کہ ظاہری درس وتدریس میں پورے نہ تھے مگرخدمت علماء کرام میں اکثر حاضررہتے اور تحقیق مسائل کا شغل ان کا وظیفہ تھا فقیر نے دیکھاہے کہ وہ مسائل میں آج کل کے صدہا فارغ التحصیلوں بلکہ مدرسوں بلکہ نام کے مفتیوں سے بدرجہا زائد تھے، پس اگر شخص مذکور فی السوال خواہ بذات خود خواہ بفیض صحبت علماء کاملین علم کافی رکھتاہے جو بیان کرتاہے غالباً صحیح ہوتاہے اس کی خطا سے اس کا صواب زیادہ ہے تو حرج نہیں (فتاوہ رضویہ جلد ۲۳ ص ۱۶۴) واللہ تعا لی ورسولہ اعلم بالصواب
کتبہ
الفقیر تاج محمد قادری واحدی اترولوی
0 تبصرے