سوال نمبر 60
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سوال کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ فقہ کی کتابوں میں تحریر ہے کہ رشوت لینا اور دینا دونوں ناجائز و حرام ہے تو مدارس اسلامیہ میں جو روپیہ نوکری کے لئے دی جاتی ہے کیا وہ رشوت کے حکم میں ہے؟اور لینے دینے والے کے بارے میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے؟ نیز اگر لینے دینے والے دونوں عالم ہوں تو انکی امامت و خطابت کا کیا حکم ہے؟ تسلی بخش جواب عنایت فرما ئیں.
سائل محمد وسیم فیضی
الجواب بعون الملک الوھاب بیشک رشوت حرام اشد حرام ہے قرآن واحادیث میں اس کی وعیدیں موجود ہیں.
لیکن مدارس اسلامیہ میں جو رقم نوکری کے لئے دی جا تی ہے یا منیجر مطالبہ کرکے لیتے ہیں یہ رشوت نہیں ہے اور نہ ہی ناجائز وحرام ہے بلکہ جائز ہے کیونکہ رقم ہر ایک مدارس میں نہیں دی جاتی ہے بلکہ انہیں مدارس میں دی جاتی ہے جو منیجر کے کافی محنت و مشقت کے بعد ایڈ ہو تا کاغذات کو لیکر بار بار لکھنؤ کا چکرلگانا کئی کئی مہینے تک اسی میں لگا رہنا اپنے کام کا نقصان کرنا بھوک وپیاس کی شدت کو برداشت کرنا ساتھ ہی ساتھ کافی رقم خرچ کرنا جبکہ نہ منیجر کو نوکری ملنے والی ہے نہ ہی انکی اولادوں کو نوکری ملنے والی ہے پھر یہ محنت کس لئے.
ہم پوچھتے ہیں کیا اپنے محنت کا روپیہ لینا سود ہے یا حرام ہے؟ تو جواب ہوگا نہیں بلکہ ہر شخص کو اپنے محنت کا روپیہ مانگنے کا حق ہے پھر محنتانہ بھی ہر انسان کا الگ الگ ہے ایک مزدور ایک دن مزدوری تین سو چار سو لیتا ہے اگر مستری ہے تو کم سے کم چھ سو کا مطالبہ کرتا جبکہ ایک وکیل ایک گھنٹہ کا چھ سو لے لیتا ہے اور اگر اس جگہ ڈاکٹر ہو تو پوچھئے مت کہ ایک گھنٹہ کا دس ہزار سے بھی زائد کا مطالبہ کرے گا الغرض جس کا جیسا عہدہ ہوتا ہے اسی اعتبار سے رقم لیتا ہے.
روپئے دینے والے اور لینے ولے اگر دونوں متفق ہوں تو کوئی قباحت نہیں جیسا کہ قرآن مجید ہے
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمۡ ۟ وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمۡ رَحِیۡمًا ﴿نساء۲۹﴾
ترجمہ اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤمگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضامندی کا ہو اور اپنی جانیں قتل نہ کرو بیشک اللہ تم پر مہربان ہے.
بارہا کا تجربہ ہے کہ لوگ اپنے فائدہ کے لئے خود اپنی رضا سے رقم دیتے ہیں بلکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اگر منیجر کا مطالبہ دس لاکھ ہو تو لوگ گیارہ لاکھ دینے کو بھی راضی ہوتے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اپنی رضا سے دیتے ہیں نہ کہ دباؤ میں آکر ہاں اتنا زیادہ روپئے کا مطالبہ کرنا زیادتی ہے مگر ناجائز وحرام نہیں ہے.
🖊جب یہ ثابت ہوگیا کہ رقم لینا نہ نا جائز وحرام ورشوت نہیں تو ایسوں کی امامت وخطابت میں کوئی قباحت نہیں
🖊ہاں اگر منیجر کا مطالبہ دس لاکھ ہو اور دوسرا کوئی شخص کہے مجھے لاکھ پچاس ہزار دے دو تو میں منیجر سے نوکری دلا دونگا تو یہ ضرور رشوت ہے اور اس کا لینا دینا دونوں حرام ہے یا منججر ایسے شخص سے روپئے لیتا ہے جسے جانتا ہے کہ یہ مدرسہ کے کام کو انجام نہ دے سکے گا پھر بھی ایسوں سے رقم لیتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے.
واللہ تعا لی اعلم بالصواب
کتبہ
الفقیر تاج محمد قادری واحدی اترولوی
0 تبصرے