سوال نمبر 21
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ قضاء کی کتنی قسمیں ہیں اور غوث اعظم کی رسائی قضاء مبرم تک ہے اس سے کون سی قضاء مراد ہے حوالے کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی
سائل محمد جاوید احمد خان قادری بلرامپور
وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
صورت مستفسرہ میں عرض ہے تقدیر قطعا ایسی چیز نہیں جس میں تبدیلی نہ ہوسکے تقدیر کی تین اقسام ہیں
( ۱) تقدیر مبرم حقیقی (۲ ) تقدیر غیر مبرم حقیقی(۳ ) تقدیر معلق
پہلی قسم کا آخری فیصلہ ہوتا ہے جسکو حکم ربی سے لوح محفوظ پر لکھدیا جاتا ہے اور اس میں تبدیلی ممکن نہیں اسکی مثال جیسے قوم لوط پر عذاب الہی
قال اللہ تعالٰی فی القرآن الکریم
یاابراھیم اعرض عن ھذا انہ قد جاء امر ربک وانھم آتیھم عذاب غیر مردود
سورہ ھود ۱۱ : ۷۶
قسم دوم تقدیر مبرم غیر حقیقی جس تک خاص اکابر اولیا کی رسائی ہوسکتی ہے سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ اسی کے تعلق سے فرماتے ہیں
میں قضائے مبرم کو رد کردیتا ہوں
(بہارشریعت ۱ : ۶ ) اور اسی کی نسبت احادیث میں ارشاد ہوتا ہے
لایر القضاء الاالدعاء
( ترمذی الجامع الصحیح کتاب القدر باب ماجاء لایرد القدر الاالدعاء* ۔۔۔ رقم ۲۱۳۹ )
صرف دعا ہی قضا کو ٹالتی ہے
ان الدعاء یرد القضاء مبرم
بےشک دعا قضائے مبرم کو ٹالدیتی ہے
دیلمی ۵ : ۳۶۴
تیسری اور آخری قسم قضائے معلق کی ہے جس تک اولیا صلحا نیک بندو کی رسائی ہوسکتی ہے خواہ وہ اللہ کی عطا سے ہو یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے یا اولیاءکرام کی دعاؤں سے یا والدین کی خدمت سے یا صدقہ و خیرات سے اللہ کی طرف سے بھی یہ وعدہ ہے اگر کوئی بندہ چاہے تو ہم اسکے بدلنے والے ارادے نیت دعا کے ساتھ ہی اسکی تقدیر بدل دینگے
یمحو اللہ مایشاء ویثبت وعندہ ام الکتاب
سورہ رعد ۱۳: ۳۹
اللہ جس لکھے ہوئے کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ثبت فرمادیتا ہے اسی کے پاس اصل کتاب لوح محفوظ ہے
لہٰذا آیات مبارکہ احادیث نبویہ صل اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ثابت ہوگیا اللہ نے اپنے بعض محبوب بندوں کو قضائے مبرم غیر حقیقی کو بدلنے پر اختیار بخشا ہے
اسی طرح قضائے معلق پر بھی
واللہ سبحانہ تعالٰی اعلم باالصواب
کتبہ محمد جواد القادری
0 تبصرے