سوال نمبر 50
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام و مفتیان عظام مسٸلہ ذیل میں کہ عقد نکاح میں دو گواہوں کا ہونا شرط ہے
اب ان دونوں گواہوں میں سے ایک سنی صحیح العقیدہ ہے اور ایک وہابی دیوبندی ہے
تو کیا نکاح منعقد ہوا
دلاٸل کی روشنی میں جواب عنایت فرماٸیں
عین و نوازش ہوگی
ساٸل ۔محمد مزمل حسین
وعلیکم السلام ورحمت اللہ
الجواب
نکاح منعقد ہونے کے لئے دو آزاد مسلمان مرد یا ایک آزاد مسلمان مرد اور دو آزاد مسلمان عورتوں کا گواہ ہونا شرط ہے
اور کافروں کی گواہی معتبر نہیں اور وہابی دیوبندی اپنے عقائد کفریہ قطعیہ کی بنیاد پر بمطابق فتاوی حسام الحرمین کافر و مرتد ہیں
لہذا اس کی گواہی سے نکاح نہ ہوگا
جیسا کہ اللہ تعالی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے
ولن یجعل اللہ للکفرین علی المومنین سبیلا
پارہ 5 سورہ نساء
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں حضرت ملا احمد جیون تحریر فرما تے ہیں
ولن یجعل اللہ علی المومنین سبیلا ای حجت علی المومنین فی الدنیاان لایجوز شھادت الکافر علی المسلم لانہ فیہ ولایت لھم علی المسلم
تفسیر ات احمدیہ
اور در مختار مع شامی جلد چھارم میں ہے
شرط حضور شاھدین مسلمین لنکاح مسلم
اور بحرالرائق جلد سوم میں ہے
لاینعقد بحضرت الکافر فی نکاح المسلمین لانہ لا ولایت لھو لاء
لہذا صورت مسولہ میں جبکہ وہابی دیوبندی گواہ ہو تو نکاح نہ صحیح نہ ہوگا
ہاں اگر ایجاب وقبول کے وقت دوگواہ مذکورہ کے علاوہ اور لوگ مجلس نکاح میں موجود تھے جیسا کہ عموما ہوتے ہیں تو نکاح ہوگیا چونکہ وہاں مرد وعورت جتنے رہتے ہیں سب گواہ ہیں نہ کہ صرف نامزد گواہ ایساہی فتاوی امجدیہ جلد دوم ص ۱۴ پر ہے
ہاں اگر ایجاب وقبول کے وقت دوگواہ مذکورہ کے علاوہ اور لوگ مجلس نکاح میں موجود تھے جیسا کہ عموما ہوتے ہیں تو نکاح ہوگیا چونکہ وہاں مرد وعورت جتنے رہتے ہیں سب گواہ ہیں نہ کہ صرف نامزد گواہ ایساہی فتاوی امجدیہ جلد دوم ص ۱۴ پر ہے
واللہ اعلم
محمد وسیم فیضی رضوی
0 تبصرے