آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

امر بالمعروف نہی عن المنکر

سوال نمبر 11

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
 ســــــــــــــوال کیا کسی عالم کے لیے یہ جائز ہے کہ مسئلہ جاننے کے بعد بھی وہ خاموش رہے اور وہاں جہاں پر اس مسئلے کو دبایا جا رہا ہے اور دھیرے دھیرے وہاں سے ختم کیا جا رہا ہےاور خاص کر کسی سیٹھ کے سامنےاگر وہ عالم دین ایسا کرتا ہے تو اس کے لئیے حکم شرع کیا ہے ؟مسئلہ جب کہ ضروریات دین میں سے ہے
(1)جیسے کوئی شخص  اذان مسجد کے اندر ہی پڑھے اور عالم خاموش رہے،
(2)جیسے خطبہ کی اذان مسجد کے اندر ہو اور وہ بھی ممبر کے سامنے نہیں
(3) اور اوجھڑی کا مسئلہ اجاگر نہ کرے
(4) کوئی آدمی نماز صحیح ڈھنگ سے نہ پڑھتا ہو اور عالم دیکھ کر منھ پھیر لے.
(5) جیسے تعزیہ کا مسئلہ نہ بتائے عوام کی ڈر سے وغیرہ وغیرہ مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں مفتیان کرام و علمائے کرام کی عین و نوازش ہوگی.
ســــــــــائل صبغت اللہ فیضی نظامی بھالوکونی سدھا رتھ نگر

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

 الجــــــــــــــــــواب بعون الملک الوھاب الھـــــــــــــــــــــادی الـــــــصواب
اچھی بات کا حکم کرنا اور بری بات سے منع کرنا دین کا بڑا ستون ہے اس کے لئے اللہ تعالی نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا اگر اسے بالکل ترک کردیا جائے اور اس کے علم و عمل کو بیکار چھوڑ اجائے تو غرض نبوت بیکار اور دیانت مضمحل اور سستی عام گمراہی  تام اور جہالت شائع اور فساد زائد اور فتنہ بپا ہو جائے گا بلاد خراب اور بند گان خدا تباہ ہو جائیں گے اسی لئےاللہ تعالی نے قرآن مجید والفرقان حمید میں ارشاد فرمایا وَلتَکُنۡ مِّنۡکُمۡ اُمَّۃٌ یَّدۡعُوۡنَ اِلَی الۡخَیۡرِ وَ یَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ  الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿پ۴سورہ.آل عمران ۱۰۴﴾
ترجمہ اور تم میں ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بری سے منع کریں اور یہی لوگ مراد کو پہنچے-
     دوسری جگہ ارشاد فرماتاہے کَانُوۡا لَا یَتَنَاہَوۡنَ عَنۡ مُّنۡکَرٍ فَعَلُوۡہُ ؕ لَبِئۡسَ مَا کَانُوۡا یَفۡعَلُوۡنَ ﴿سورہ مائدہ ۷۹﴾
ترجمہ جو بری بات کرتے آپس میں ایک دوسرے کو نہ روکتے ضرور بہت ہی برے کام کرتے تھے -
      نیز ارشاد فرماتاہے لَوۡ لَا یَنۡہٰہُمُ الرَّبّٰنِیُّوۡنَ وَ الۡاَحۡبَارُ عَنۡ قَوۡلِہِمُ الۡاِثۡمَ وَ اَکۡلِہِمُ السُّحۡتَ ؕ لَبِئۡسَ مَا  کَانُوۡا  یَصۡنَعُوۡنَ ﴿سورہ مائدہ ۶۳﴾
ترجمہ انہیں کیوں نہیں منع کرتے ان کے پادری اور درویش گناہ کی بات کہنے اور حرام کھانے سے ، بیشک بہت ہی برے کام کر رہے ہیں -
       واضح رہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو علماء کرام نے فرض کفایہ فرمایا ہے یعنی اگر کچھ لوگوں نے اس کام کو انجام دی دیا تو سب بری ذمہ ہو گئے ورنہ سب کے سب گنہگار ہونگے . اگر اشک سے مذکورہ منع کرنے کی طاقت رکھتا تھا اور منانا کیا تو بہت بڑا گناہ گار ہوا اور اگر صحیح معنوں میں فتنہ وفساد کا خوف ہو پھراس وجہ سے ایسا نہ کیا تو اس پر کچھ گناہ نہیں جب کہ اس فعل کودل سے براجانتا ہوجیسا کہ حدیث شریف میں ہے عَنْ طَارِقِ بْنِ شِھَابٍ قَالَ: اَوَّلُ مَنْ قَدَّمَ الْخُطْبَۃَ قَبْلَ الصَّلَاۃِ مَرْوَانُ، فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ:یَا مَرْوَانُ خَالَفْتَ السُّنَّۃَ، قَالَ: تُرِکَ مَا ھُنَاکَ یَا اَبَا فُلَانٍ، فَقَالَ ابوسَعیْدٍ: (اَلْخُدْرِیُّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌) اَمَّاھٰذَا فَقَدْ قَضٰی مَا عَلَیْہِ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((مَنْ رَاٰی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہِ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہِ، فَاِنْ لَمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ، وَذٰلِکَاَ ضْعَفُا لْاِیْمَانِ (مسند احمد: ۱۱۴۸۰)
ترجمہ سیدنا طارق بن شہاب کہتے ہیں: پہلا شخص، جس نے نماز سے پہلے خطبہ دیا، وہ مروان ہے، ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے مروان! تو نے سنت کی مخالفت کی ہے، اس نے کہا: اے ابو فلاں! وہ والے امور چھوڑ دیئے گئے ہیں، سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس آدمی نے اپنی ذمہ داری ادا کر دی ہے، میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: تم میں جو آدمی برائی کو دیکھے، اس کو اپنے ہاتھ سے تبدیل کرے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر اتنی طاقت بھی نہ ہو تو دل سے برا سمجھے، اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ واللہ تعالی اعلم بالصواب 
 کــتبہ
الفقیر تاج محمد قادری واحدی اترولوی



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney