سوال نمبر 82
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اگر کسی شخص نے کسی کام کے تعلق سے قرآن شریف یا خدائے تعالیٰ کی قسم کھالی مگر اب وہ کام کرنے سے وہ شخص قاصر ہے
یا یوں کہیں کہ اس نے قسم توڑ دی تو اس شخص کے لئے کیا حکم ہےاور قسم توڑنے کے بعد کیا کرے براہ کرم مدلل جواب عنایت فرمائیں.فقط والسلام
سائل قمر رضوی علیمی
وعلیکم السلام ورحمت اللہ
الجواب صورت مسولہ میں عرض ہے کہ قرآن کی قسم پہلے متعارف نہ تھی اس لئے شرعی نہ تھی جیسا کہ صاحب ھدایہ نے اس کی تعلیل میں فرمایا
🖊 لانہ غیر متعارف
لیکن اب اس کی قسم متعارف ہے اس لئے قرآن کریم کی قسم بھی جمہور کے نذدیک شرعی قسم ہے اور اس پر شرعی قسم کے احکام مرتب ہونگے جیسا کہ
عمدالرعایہ
درمختار اور فتح القدیر میں ہے لایخفی ان الحلف باالقرآن الان متعارف فیکون یمینا
اور فتاوی عالمگیری میں ہے
قال محمد رحمت اللہ علیہ فی الاصل
لوقال والقرآن لایکون یمینا زکرہ مطلقا والمعنی فیہ وھو ان الحلف بہ لیس بمتعارف فصار کقولہ وعلم اللہ وقد قیل ھذا فی زمانھم اما فی زماننا فیکون یمینا وبہ ماخذ نا مرو نعتقد ونعتمد وقال محمد بن مقاتل الرازی لوحلف بالقرآن یکون یمینا وبہ اخذ جمہور مشائخنا کذا فی المضمرات
اور صدرالشر یعہ علیہ الرحمہ فرما تے ہیں
قرآن کی قسم کلام اللہ کی قسم سے بھی قسم ہوجاتی ہے
بہار شریعت
اب قرآن کی قسم توڑنے پر کفارہ لازم ہے اور قسم کا کفارہ یہ ہے
کہ دس مسکینوں کو دونو وقت پیٹ بھر کھانا کھلائے
یا دس مسکینوں کو کپڑا پہنائے اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو تین روزہ پے در پے رکھے.
اور یہی حکم اس شخص کے لئے ہے جو خدائے تعالی کی قسم کھا کر قسم توڑ دے.
واللہ اعلم
محمد وسیم فیضی
1 تبصرے
Akbar ali
جواب دیںحذف کریں