آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

مطلقہ حاملہ اگر دوا کھاکر حمل ضائع کردے توعدت کا کیا حکم ہے؟

سوال نمبر 67

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎،
کیا فرماتے ھیں علماے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل میں کہ مطلقہ حاملہ عورت نے اگر دوا کھا کر حمل ضائع کردیا تو عدت کی کیا صورت ھوگی ؟
بینوا توجروا.

ساٸل محمد ریحان رضا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 جواب صورت مسئولہ میں اگر مطلقہ حاملہ عورت نے اس وقت دوا کھا کر اپنا حمل ضائع کیا جب کہ بچہ کے اعضاء ظاہر ہوچکے تھے تو اب وہ عدت سے باہر ہوگئی اور اگر بچہ کے اعضاء ظاہر نہ ہوئے تھے تو اب ایسی صورت میں عدت سے باہر نہیں ہوگی بلکہ وہ اب عدت حیض کے اعتبار سے گزارے گی ۔
جیسا کہ فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ ایک سو بیس دن یا اُس سے زائد عرصہ کا حمل ساقط ہو تو عورت نفاس والی قرار پاتی ہے اور وضع حمل کے احکام اس سے متعلق ہوتے ہیں ، اُس سے کم مدت ہو تو عورت نفاس والی نہیں ہوگی ، بلکہ اس پر حیض کے احکام جاری ہوں گے۔
اور فقیہ ملت حضرت مفتی جلال الدین علیہ الرحمہ فتاوی فیض الرسول میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ " جب کہ بچہ کے اعضاء ظاہر ہوچکے تھے تو عدت ختم ہوگئی اور اگر بچہ کے اعضاء ظاہر نہ ہوئے تھے تو عدت ختم نہ ہوئی جیسا کہ فتاوی عالمگیری ج 1 ص 473 پر بدائع الصائع سے ہے " شرط انقضاء هذه العدة ان يكون ما وضعت قد استبان خلقه فان لم يستبن خلقه رأسا بان أسقطت علقة او مضغة لم تنقض العدة " اھ ( فتاوی فیض الرسول ج 2 ص 301 ) اور رد المحتار میں ہے کہ " ( وسقط ) مثلث السین أی مسقوط ( ظهر بعض خلقه کید أو رجل ) أو أصبع أو ظفر أو شعر ، ولا یستبین خلقه إلا بعد مائة و عشرین یوما ( ولد ) حکما ( فتصیر ) المرأۃ ( به  نفساء ۔ ۔) ۔ ۔ ۔ فإن لم یظهر له شیء فلیس بشیء ، والمرئی حیض إن دام ثلاثا و تقدمه طهر تام وإلا استحاضة " اھ  ( درمختار مع رد المحتار ، کتاب الطھارۃ ، باب الحیض ) ۔
اور رہا عورت کا بغیر کسی عذر شرعی دوا کر حمل ضائع کرنا سخت ناجائز و حرام ہے  

واللہ اعلم بالصواب۔
مرتب
کریم اللہ رضوی 



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney