صدقہ کی کتنی قسمیں ہیں

سوال نمبر 133

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 سوال کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ صدقہ کی کتنی قسمیں ہیں؟ تفصیلی جواب عنایت فرمائیں.
 سائل محمد رضوان گونڈہ 

وعلیکم سلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

              بسم اللہ الرحمن الرحیم
 الجواب بعون الملک الوہاب  صدقہ کی دو قسمیں ہیں :
1۔صدقہ واجبہ
 2۔ صدقہ نافلہ
1⃣  صدقہ واجبہ سے مراد ایسے صدقات ہیں جن کا ادا کرنا ہر صاحب نصاب پر لازم ہے مثلاً زکوٰۃ، صدقہ فطر، عشر نذر وغیرہ۔
قرآن حکیم میں زکوٰۃ کی اہمیت ان الفاظ سے بیان کی گئی ہے۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُهَا لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَـاةَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِنَا يُؤْمِنُونَ (اعراف ۱۵۶)
ترجمہ اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہے تو عنقریب میں نعمتوں کو ان کے لیے لکھ دوں گا جو ڈرتے اور زکوٰة دیتے ہیں اور وہ ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں ،(کنزالایمان)

2⃣زکوۃ کی طرح صدقہ فطر بھی ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر واجب ہے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَرَضَ زَکَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ عَلَی کُلِّ نَفْسٍ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ : حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ، أَوْ رَجُلٍ أَوِ امْرَأَةٍ، صَغِيْرٍ أَوْ کَبِيْرٍ، صَاعًا مِنْ تَمَرٍ، اَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيْرٍ.
ترجمہ ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقہ فطر کو ہر مسلمان غلام اور آزاد، مرد و عورت، بچے اور بوڑھے پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو واجب ٹھہرایا۔‘‘ (مسلم، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب : زکوة الفطر علی المسلمين من التمر والشعيرِ، حدیث ممبر ۹۸۴)
       البتہ زکوۃ کی ادائیگی کے لئے سال بھر نصاب کا باقی رہنا شرط ہے جبکہ صدقہ فطر میں نصاب پر سال کا گذرنا شرط نہیں بلکہ اگر کسی شخص کے پاس عیدالفطر کے دن نصاب زکوۃ کے برابر مال اس کی حاجاتِ اصلیہ سے زائد موجود ہو تو اس پر صدقہ فطر کی ادائیگی واجب ہے۔

3⃣اسی طرح زمین سے جوبھی پیداوار ہو گیہوں، جو، چنا، باجرا، دھان وغیرہ ہر قسم کے اناج، گنا، روئی ہر قسم کی ترکاریاں، پھول، پھل میوے سب پر عشر واجب ہے۔جیسا کہ قرآن شریف میں ہے وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَ جَنّٰتٍ مَّعۡرُوۡشٰتٍ وَّ غَیۡرَ مَعۡرُوۡشٰتٍ وَّ النَّخۡلَ وَ الزَّرۡعَ مُخۡتَلِفًا اُکُلُہٗ  وَ الزَّیۡتُوۡنَ وَ الرُّمَّانَ مُتَشَابِہًا وَّ غَیۡرَ  مُتَشَابِہٍ ؕ کُلُوۡا  مِنۡ ثَمَرِہٖۤ  اِذَاۤ  اَثۡمَرَ وَ اٰتُوۡا حَقَّہٗ یَوۡمَ حَصَادِہٖ  ۫ ۖوَ لَا تُسۡرِفُوۡا ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ ﴿انعام.۱۴۱﴾ۙ
ترجمہ اور وہی ہے جس نے پیدا کیے باغ کچھ زمین پر چھئے ( چھائے ) ہوئے  اور کچھ بےچھئے ( پھیلے ) اور کھجور اور کھیتی جس میں رنگ رنگ کے کھانے اور زیتون اور انار کسی بات میں ملتے  اور کسی میں الگ  کھاؤ اس کا پھل جب پھل لائے اور اس کا حق دو جس دن کٹے اور بےجا نہ خرچوبیشک بےجا خرچنے والے اسے پسند نہیں ،(کنزالایمان)
         اور حدیث شریف میں ہے
 حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ وَهَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ وَعَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ وَالْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ كُلُّهُمْ عَنْ ابْنِ وَهْبٍ قَالَ أَبُو الطَّاهِرِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ أَنَّ أَبَا الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَذْكُرُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِيمَا سَقَتْ الْأَنْهَارُ وَالْغَيْمُ الْعُشُورُ وَفِيمَا سُقِيَ بِالسَّانِيَةِ نِصْفُ الْعُشْرِ
 (مسلم شریف حدیث نمبر ۲۲۷۲)
ترجمہ حضرت جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ نے فر ما یا : جس ( کھیتی ) کو دریا کا پانی یا بارش سیرا ب کرے ان میں عشر ( دسواں حصہ ) ہے اور جس کو اونٹ ( وغیرہ کسی جا نور یا مشین کے ذریعے ) سے سیراب کیا جا ئے ان میں نصف عشر ( بیسواں حصہ ) ہے ۔
2-صدقہ نافلہ 
جو شخص ﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنی ضرورت سے زائد مال غریبوں، مسکینوں، محتاجوں اور فقیروں پر خرچ کرے وہ صدقہ نافلہ میں شمار ہو گا۔ اور اس کو اسی اعتبار سے اجر ملے گا جیسا کہ ارشاد ربانی ہے 
مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّئَةُ حَبَّةٍ وَاللّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
ترجمہ جو لوگ ﷲ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال (اس) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں) اور ﷲ جس کے لئے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے، اور ﷲ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے. (البقرہ۲۶۱)
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا’’جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کا ایک ٹکڑا دے کر‘‘
 (بخاری، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب اتقو النار و لو لبشق تمرة والقليل من الصدقة، رقم۱۳۵۱) واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

کتبہ

الفقیر تاج محمد حنفی  قادری واحدی اترولوی









ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney