سوال نمبر 121
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
سوال کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ آج کل قبرستان میں دفن کرنے کے بعد جو قبر پر اذان دی جاتے ہے کیا یہ درست ہے بکر کہتا ہے کی جائز ہے اور زید کہتا ہے کی جائز نہیں اس مسئلہ کا قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت کریں جزاک اللہ خیرا
(المستفتی سجادرضانعیمی)
=======================
وعلیکم السلام و رحمةاللہ و برکاته
الجواب ھوالموفق للحق والصواب
صورت مسؤلہ میں بکر کاقول درست وباصواب ہےاور زیدخطاپر ہے
اذان قبر کے جواز کا ثبوت مستندکتب میں مذکورومسطور ہے بخاری ومسلم کی روایت ہے کہ سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
،،عن أبي هريرة إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ أدْبَرَ الشَّيْطانُ، وله ضُراطٌ، حتّى لا يَسْمع التَّأْذِينَ، فَإِذا قَضى النِّداءَ أقْبَلَ، حتّى إذا ثُوِّبَ بالصَّلاةِ أدْبَرَ، حتّى إذا قَضى التَّثْوِيبَ أقْبَلَ، حتّى يَخْطِرَ بيْنَ المَرْءِ ونَفْسِهِ، يقولُ: اذْكُرْ كَذا، اذْكُرْ كَذا، لِما لَمْ يَكُنْ يَذْكُرُ حتّى يَظَلَّ الرَّجُلُ لا يَدْرِي كَمْ صَلّى.
البخاري (٢٥٦ هـ)، صحيح البخاري ٦٠٨ • [صحيح] • أخرجه البخاري (٦٠٨) واللفظ له، ومسلم (٣٨٩) • شرح الحديث،،
یعنی جب اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیر کر گوز کرتا ہوا بھاگتا ہےالخ
اورصحیح مسلم کی روایت میں یوں ہے،،
* عن جابر بن عبدالله إنَّ الشَّيْطانَ إذا سَمِعَ النِّداءَ بالصَّلاةِ ذَهَبَ حتّى يَكونَ مَكانَ الرَّوْحاءِ. قالَ سُلَيْمانُ: فَسَأَلْتُهُ عَنِ الرَّوْحاءِ فَقالَ: هي مِنَ المَدِينَةِ سِتَّةٌ وثَلاثُونَ مِيلًا.،،*
مسلم (٢٦١ هـ)، صحيح مسلم ٣٨٨ • [صحيح] • شرح الحديث،،
یعنی شیطان جب اذان سنتا ہے تو بھاگ کر مقام روحاء تک چلا جاتا ہے. اور روحاء مدینہ شریف سے چھتیس میل جو تقریباً ۵۷/کیلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے
میت کو قبرمیں رکھنے کے بعد جب منکر نکیر کا سوال ہوتا ہے تو شیطان خلل انداز ہوکرمردہ کو بہکا تا ہے اس لئے اذان دیکر اسے بھگایاجاتاہے اس کے علاوہ اس اذان میں اور بھی بہت سے فائدے ہیں جس کی تفصیل سیدی اعلی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کےمستقل ایک رسالہ مبارکہ،، ایذان الاجر فی اذان القبر،، میں موجودہے. بعض قبروں پر بعددفن حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا تکبیر کہنا ثابت ہے. زمانہ رسالت میں اس طرح کی اذان قبرپر ثابت نہیں یہ بعد کی ایجاد ہےجوجائزودرست ہے. جیسے کہ قرآن پاک کے تیس پارے بنانا.اسے معرب کرنا، فقہ، اصول فقہ، اصول حدیث، علم کلام، ایمان مجمل وغیرہ وغیرہ.یہ سب کچھ نہ تھامگربعدمیں مدون ومروج ہوکرجائزومستحسن قرارپایا.اسی طرح قبرپراگرچہ مروج اذان نہ ہوتی تھی مگراس میں کثیر فوائدہیں اس لئےجائزومستحسن ہے
ھذا ما عندی والعلم عند اللہ
کتبـــه
منظوراحمد یارعـــلوی
0 تبصرے