سوال نمبر 122
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسلہ ذیل کے بارےمیں جمعہ کے خطبہ کے وقت خطبہ اول میں لوگ ہاتھ باندھ لیتے ہیں اور خطبہ ثانی میں چھوڑ دیتے ہیں کیا ایسا کرنا صحیح ہے ؟
السائل محمد فاروق خان
=======================
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب ھوالموفق للحق والصواب
ہاں ایسا کرنادرست ہے
جس وقت امام خطبہ کے ارادے سے منبر کی طرف چلے اسی وقت سے ذکر ‘ تسبیح ‘ کلام وغیرہ ترک کرکے ہمہ تن خطیب کے طرف متوجہ ہوجائیں ۔
أن كل ما حرم في الصلاة حرم في الخطبة فيحرم أكل وشرب وكلام ولو تسبيحا أو رد سلام أو أمرا بمعروف إلا من الخطيب
( ردالمحتارباب الجمعة)
خطبہ جب مثل نماز ہے تو نمازہی کی طرح بیٹھنا درست ہوگااور نماز کی حالت میں ہاتھ باندھ کر اور چھوڑ کر دونوں طرح بیٹھا جاتاہے
خطبہ سے متعلق کچھ ضروی معلومات بھی ملاحظہ ہوں
جب خطبہ شروع ہوجائے تو تمام حاضرین کو خطبہ کا شروع سے آخر تک سننا واجب ہے خواہ حاضرین خطیب کے نزدیک بیٹھے ہوں یا خطیب سے دور اور خواہ خطبہ سنائی دے یا نہ سنائی دے
حالت خطبہ میں ایسا کوئی فعل کرنا جو خطبہ سننے میں خلل انداز ہو مکروہ تحریمی ہے یعنی کھانا ‘ پینا ‘ چلنا‘ پھرنا ‘ بات چیت کرنا‘ سلام کرنا یا سلام کا جواب دینا ‘ ذکر ‘ تسبیح ‘ قرآن مجید یا نفل پڑھنا ‘ یا کسی کو شرعی مسئلہ بتانا وغیرہ امور جس طرح نماز میں منع ہیں اسی طرح حالت خطبہ میں بھی منع ہیں اورجو امور نماز کے اندر مکروہ ہیں وہ خطبہ کے وقت بھی مکروہ ہیں ۔
اگر کوئی شخص سنت پڑھ رہا ہو اور اس حالت میں خطبہ شروع ہوجائے تو اس کو چاہئے کہ سنت اختصار کے ساتھ پورا کرلے ۔
"جمعہ کی سنتیں شروع کی تھیں کہ امام خطبہ کے لیے اپنی جگہ سے اٹھا چاروں رکعتیں پوری کرلے۔ (8) (عالمگیری)"
(بحوالہ بہارشریعت)
خطبہ سننے والوں کو چاہئے کہ قبلہ رو بیٹھیں اور خطیب کی طرف متوجہ رہیں ۔
خطبہ سننے کے وقت دو زانو یعنی جس طرح نماز میں بیٹھتے ہیں اسی طرح بیٹھنا مستحب ہے ۔
اگر خطبہ کی آواز نہ آتی ہو یعنی خطبہ سنائی نہ دے تب خطبہ ہی کی طرف کان لگائے رہیں آواز نہ آنے کی وجہ سے بات چیت یا ذکر ‘ تسبیح وغیرہ میں مشغول نہ ہوں
خطبہ کے وقت کسی کو کچھ پڑھنے یا بات کرنے سے منع بھی نہ کریں ( البتہ اشارہ سے خاموش کر دیں تو مضائقہ نہیں)
واللہ تعالی اعلم وعلمه احكم
كتبــه
منظوراحمد یارعـــلوی
0 تبصرے