سوال نمبر 191
مسٸلہ۔ شی مرہون کی زکوٰة نہ مرہون پر ہے نہ راہن پر اور رہن چھوڑانے کے بعد بھی ان برسوں کی زکوة واجب نہیں۔(قانون شریعت ص٢١٧)
اس مسٸلے کی وضاحت فرمادیں۔
ساٸل۔ محمد ایوب رضا
الجواب
آج معاشرہ میں رائج ”رہن“ کا معاملہ بھی اسی قبیل سے تعلق رکھتا ہے۔ جس میں تقریبا ً۹۰/ فیصد لوگ مالِ مرہون سے فائدہ اٹھانے کو مباح اور اپنا حق سمجھتے ہیں؛ یہاں تک کہ راہن اور مرتہن کوئی بھی اس کو قبیح اور غیر شرعی نہیں سمجھتا۔ ضرورت ہے اس کی صحیح اسلامی صورت معلوم کرکے عمل کرنے کی۔
”رہن“ عربی لفظ ہے اور اس کو ہماری علاقائی زبان میں ’بھرنا‘ اور’بندھک‘ کہتے ہیں۔اور اردو زبان میں’گروی‘کہتے ہیں۔ رہن کی شرعی تعریف یہ ہے کہ کسی شی ٴمالی کا دَین (قرض) کے بدلے محبوس کرنا کہ اس سے یا اس کی قیمت سے بہ وقتِ تعذر اپنے دَین کی وصولی ممکن ہو، اَلرَھنُ ھو حَبسُ شئیٍ مالیٍ بِحَقٍ یُمکِنُ اِستِیفائُہ مِنہ کَالْدَّینِ“ (درمختار ج۵/ ص۳۰۷)
ھُو جَعلُ عَینٍ مَالیَةٍ وَثِیقَةٍ بِدَینٍ یَستَوفِی مِنھا أو مِن ثَمَنِھا اِذا تَعَذَّرَ
الوَفَاءُ (الموسوعة ج۲۳/ ص ۱۷۵)۔ رہن رکھنے والے کو راہن، جس نے قرض دیا ہے یعنی جس کے پاس رہن رکھا گیا ہے ،اس کو مرتہن اور جو چیز رہن رکھی گئی ہے، اس کو شی ٴ مرہون کہتے ہیں۔ شریعت میں انسانوں کی ضرورت کے لیے رہن کے معاملہ کو جائز اور مباح قرار دیا گیا ہے۔لِقَولِہ تعالی فَرِھَانٌ مَقْبُوضَةٌ؛تاکہ انسان اپنی پیش آمدہ ضرورتوں کی تکمیل بہ آسانی کرسکے؛ لیکن اس کے لیے کچھ شرعی حدود بھی ہیں، جن کے اندر رہ کر ہی اس معاملہ کو انجام دینا ہوگا۔ اس کے خلاف اور عدول قابلِ مواخذہ ہوگا۔ مثلاً مدتِ دَین کی ایسی تعیین کہ اس سے پہلے راہن کو فکِ رہن پر قدرت نہ دینا، مرتہن کا شی ٴ مرہون سے انتفاع کی شرط لگانا وغیرہ۔ یہ ایسی بنیادی خرابیاں ہیں جو عقدِ رہن کے لائق ومناسب نہیں ہیں اور فسخِ معاملہ کو لازم کرتی ہیں
جس کے پاس کوئی چیز رہن رکھی جائے اس کو نہ اس سے فائدہ اٹھا نے کا حق ہے اور نہ کسی تصرف کا؛ کیوں کہ اگر اس کو استفادہ کا موقع دیا جائے تو قرض کے عوض مزید فائدہ اٹھانا ہوا، جس کی حدیث پاک میں ممانعت ہے۔ ”کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعاً فَہُوَ حَرَامٌ“۔ اب پہلی اور دوسری شکل کا حکم ملاحظہ ہو: پہلی شکل یعنی راہن اور مرتہن دونوں مسلمان ہوں، تو ان کے لیے بالاتفاق شی ٴ مرہون سے انتفاع جائز نہیں۔ اور دوسری شکل یعنی راہن غیر مسلم اور مرتہن مسلمان ہو اور وہ اس کے شی ٴ مرہون سے فائدہ اٹھانا چاہے، تو حضرت امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک جائز ہے؛ کیوں کہ ان حضرات کے پیش نظر دارالحرب میں حربیوں کے مال سے فائدہ اٹھانا جائز ہے؛ لیکن امام شافعی اور امام ابو یوسف کے نزدیک جا ئز نہیں، وَکَذٰلِکَ اِذَا تَبَایَعَا بَیْعاً فَاسِداً فیِ دَارِالْحَرْبِ فَھُوَ جَائِزٌ وَھٰذا عِندَ اَبیِ حَنِیفَةَ وَمُحمدٍ وَقَالَ اَبو یوسفَ وَالشافعیُ لایَجوزُ۔ اس مسئلہ میں گر چہ علماءِ ہند نے طرفین کی رائے کے مطابق جواز کا فتویٰ دیا ہے؛ لیکن چونکہ ہندوستان کے دارالحرب یا دارالاسلام ہونے کی بحث معرکة الآرا ء مسائل میں سے ہے، اس لیے حضرت قاضی مجاہدالاسلام صاحب کی رائے یہ ہے کہ احوط اور انسب یہ ہے کہ امام ابویوسف کے قول کو اختیار کیا جائے (فتاویٰ امارت شرعیہ ج۱/ ص ۲۳۶)
بہر حال مرتہن کا مال مرہون سے فائدہ اٹھانا یا تو راہن کی اجازت سے ہوگا یا بغیر اجازت کے یاعرف ورواج کے اعتبار سے ہوگا، تمام صورتیں شرعاً ممنوع ہیں۔ اجازتاً ممنوع اس لیے ہے کہ وہ نفع ربوا ہے اور سود اجازت سے بھی حلال نہیں ہوتا، اور بغیر اجازت کے تو بدرجہ اولیٰ جائز نہ ہوگا۔ لاَ یَحِلُ لَہ اَنْ یَنْتَفِعَ بِشَیٍٴ مِنہ بِوَجْہٍ مِنَ الْوُجُوہِ اِنْ اَذِنَ لَہ الْرَّاھِنُ لانَّہ اَذِنَ لَہ فیِ الْرِبَوا (شامی ج۵/ ص۳۱۰)اور عرفاً انتفاع اس لیے جائز نہیں ہے کہ معروف مشروط کی طرح ہے اور جوحکم مشروط کا ہے وہی حکم معروف کا ہے۔ وَالْغالِبُ مِنْ اَحْوَالِ النَّاسِ اَنَّھُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُونَ عِنْدَ الْدَفْعِ اَلاِنْتِفَاعَ وَلَولَاہ لَمَا اَعْطَاہ الْدَّرَاھِمَ وَھٰذا بِمَنْزِلَةِ الْشَرْطِ لِاَنَّ الْمَعْرُوفَ کَالْمَشْرُوطِ وَھُوَ یُعِیْنُ الْمَنْعَ(شامی ج۵/ ص۳۱۱) غرض فقہاء کرام کے نزدیک کسی بھی صورت میں مال مرہون سے فائدہ اٹھا نا ربو ااور سود ہے؛ اس لیے رہن کی اشیاء سے مرتہن کے لیے مطلقاً انتفاع جائز نہ ہوگا
کتبہ:- مفتی منظور احمد صاحب قبلہ یار علوی
0 تبصرے