آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

عورت کہے طلاق دی ہے اور شوہر انکار کرے تو

سوال نمبر 177

السلام علیکم ورحمۃ اللہ
 کیا فرماتے ہیں علماۓکرام  و مفتیان عظام  مندجہ ذیل مسلہ کے  بارے میں۔
ہندہ اور بکر  دونوں میاں بیوی ہیں۔ ہندہ کا کہنا ہے کہ بکر نے مجھے  طلاق دی ہے اور بکر کا  کہنا ہے کہ  میں طلاق نہیں دیا ہوں دونو میں کس کا قول مانا جاٸیگا؟ علماۓ کرام رہنمائی فرماٸیں اور تفصیل کے ساتھ جواب عنایت فرماٸیں۔
المستفتی: محمد صدام حسین بوکارو جھارکھنڈ


وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ 

الجواب بعون الملک الوھاب: بر صدق مستفتی جب عورت ہندہ طلاق کی مدعی ہے اور اس کا شوہر بکر طلاق کا منکر ہے تو حکم یہ ہے کہ ہندہ اپنے دعوے کے مطابق گواہ پیش کرے(چاہے دو مرد گواہ ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں) اگر ہندہ گواہ پیش کردے تو ہندہ کا قول مانا جائے گا اور طلاق ہوجائے گی، اور اگر ہندہ کے پاس گواہ نہیں ہے، تو بکر پر حلف دیا جائے اگر بکر قاضی کے سامنے حلف اٹھانے سے انکار کرتا ہے تو طلاق واقع ہوجائے گی، اور اگر بکر قاضی کے سامنے حلف اٹھالے تو طلاق نہیں ہوگی۔ 

مجدد ملت سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں : 
بحالت اختلاف طلاق کا ثبوت گواہوں سے ہوگا اور دو گواہ عادل شرعی شہادت بر وجہ شرعی ادا کریں کہ اس شخص نے اپنی زوجہ کو طلاق دی طلاق ثابت ہوجائے گی، پھر اگر شوہر نفی کے گواہ دے گا یا اس بات کے کہ مطلقہ بعد طلاق اس سے بولی کچھ اصلا مسموع نہ ہوگا، ہاں اگر عورت گواہ بروجہ شرعی نہ دے سکے تو شوہر پر حلف رکھا جائے گا اگر حلف سے کہہ دے گا کہ اس نے طلاق نہ دی طلاق ثابت نہ ہوگی اور اگر حاکم شرعی کے سامنے حلف سے انکار کرے گا تو طلاق ثابت مانی جائے گی 
(فتاوی رضویہ، جلد ١٢، صفحہ ٤٥٢، ٤٥٣، مسئلہ ٢٢٠، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)۔
مزید لکھتے ہیں کہ:
غرض اسلامی ریاستوں میں قاضیان ذی اختیار شرعی کا موجود ہونا واضح، اور جہاں اسلامی ریاست اصلا نہیں وہاں اگر مسلمانوں نے باہمی مشورہ سے کسی مسلمان کو اپنے فصل مقدمات کے لئے مقرر کرلیا تو وہی قاضی شرعی ہے..... 
اور اگر ایسا نہ ہو تو شہر کا عالم کہ عالم دین و فقیہ ہو اور اگر وہاں چند علماء ہیں تو جو ان سب میں زیادہ علم دین رکھتا ہو وہی حاکم شرع و والی دین اسلام و قاضی وذوی اختیار شرعی ہے مسلمانوں پر واجب ہے کہ اپنے کاموں میں اس کی طرف رجوع کریں اور اس کے حکم پر چلیں، یتیمان بے ولی پر وصی اس سے مقرر کرائیں نابالغان بے وصی کا نکاح اس کی رائے پر رکھیں ایسی حالت میں اس کی اطاعت من حیث العلم واجب ہونے کے علاوہ من حیث الحکم بھی واجب۔
(فتاوی رضویہ، جلد ١٨، صفحہ ١٧٦، ١٧٧، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)۔

لہذا اگر واقعی بکر نے طلاق دی ہے اور اب طلاق کا انکار کرتا ہے اور کسی طرح طلاق کا ثبوت نہ ہوسکے تو قضاءً طلاق نہیں ہوگی ، اور اگر ہوئی بھی ہوتی تو دو طلاقوں تک رجعت کا حکم ہے "الطلاق مرتٰن" کے تحت عدت میں رجعت اور بعدِ عدت نکاح جائز ہو سکتے ہیں! 
اور اگر اختلاف تین طلاق کے لئے ہو تو اس کی بیوی ہندہ کو چاہیے کہ کسی طرح بکر کو اپنے پاس نہ آنے دے یعنی ( اپنے اُوپر قابو نہ دے) جس طرح بھی ممکن ہو کوشش کرکے اس سے پیچھا چھڑا لے۔  وَ ھُوَ سُبْحَانَهٗ تَعَالٰی عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُهٗ ﷺ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ۔

انتباہ: فی زمانہ ہر جگہ قاضی شرع کا ملنا بہت مشکل ہے اس لئے جب کبھی ایسا معاملہ در پیش ہو تو کسی قریبی دار الافتاء کی رجوع کریں اور مسئلہ معلوم کریں۔

کتبــه : وکیل احمد صدیقی نقشبندی پھلودی جودھپور راجستھان (الھند)۔
 ١٨ جمادی الثانی ١٤٤٥۔ بروز پیر۔ ١ جنوری ٢٠٢٤۔



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney