زکوۃ کے رقم کو تاخیر میں اداکرنا کیسا ہے

سوال نمبر 229

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
 سوال کیا فرماتے ہیں علماء کرام کہ کسی دینی مدرسہ کے لیے زکوٰۃ وصول کرنا اور ذمہ داران ادارہ کو تاخیر سے ادا کرنا مثلاً دینے میں اتنی تاخیر ہو کہ سال دیڑھ سال گزرجانے کیا حکم ہے؟ 
(۲)اورجو لوگ بیت المال بنا کر زکوٰۃ جمع کرتے ہیں کہ ضرورت مندوں کو حسب حاجت دیتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟ بینواتوجروا
المستفتی بندہ خدا




وعلیکم السلام  ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

       بسم اللہ الرحمن الرحیم
 الجواب بعون الملک الوہاب ھوالھادی الی الصواب صورت مسئولہ میں زکوتہ وصولنے والے گنہگار ہوئے کہ ایک ڈیڑھ سال تک مال زکوتہ کو ادا نہ کرنا مستحقین زکوتہ کا حق مارنا ہے جو گناہ کبیرہ ہے کہ زکوتہ کی ادائیگی میں تملیک یعنی مستحق زکوتہ کو مالک بنانا شرط ہےجیسا کہ درمختار کتاب الزکوتہ میں ہے یشترط ان یکون الصرف تملیکا اور اپنے پاس رکھنے سے  تملیک نہ پائی گئی .یونہی جو حضرات مال زکوتہ کو بیت المال میں جمع رکھتے ہیں کہ حسب ضرورت مستحقین کو دیتے رہیں گے وہ بھی گنہگار ہیں کہ زکوتہ کی ادائیگی میں تاخیر کرنا گناہ ہے جیسا کہ علامہ صدرالشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں زکاۃ فرض ہے، اس کا منکر کافر اور نہ دینے والا فاسق اور قتل کا مستحق اور ادا میں تاخیر کرنے والا گنہگار و مردود الشہادۃ ہے (بہار شریعت ح ۵)
اور فتاوی عالمگیر ی میں ہے :تجب علی الفور عند تمام الحول حتی یأثم بتاخیرہ من غیر عذر سال پورا ہونے پر زکوٰۃ فی الفورم لازم ہوجاتی ہے حتیّٰ کہ بغیر عذر تاخیر سے گناہ ہوگا، ( کتاب الزکوٰۃ فصل فی مال التجارۃ /۱ /۱۷۰)
اور طحطاوی علی مراقی میں ہے ھی واجبتہ علی الفور وعلیہ الفتوی فیاثم بتاخیر ھا بلا عذر (ص ۳۸۸)
 لہذا زکوتہ وصول کرنے والے حضرات پر لازم ہے کہ مال زکوتہ کو وصولنے کے بعد ذمہ داران مدرسہ کو دے دیاکریں اور ذمہ داران پر لازم ہے کہ جیسے مال زکوتہ آئے کسی غریب کو دیکر اس کامالک بنادیں پھر جب وہ اپنی مرضی سے واپس کردے تو بیت المال میں جمع کریں اور حسب ضرورت مستحقین کو دیتے  رہیں. اس طرح لوگوں کی ضرورتیں بھی پوری ہوجائیں گی اور گناہ سے بھی محفوظ رہیں گے. مزید تفصیل کے لئے سرکار اعلی حضرت رضی اللہ عنہ کا رسالہ تجلیّ المشکوٰۃلانارۃاسئلۃالزّکوٰۃ کا مطالعہ کریں. واللہ اعلم بالصواب
نوٹ:- حیلہ شرعی کرنے کے لئےرقم فقیر کو دئے اگر وہ رقم واپس نہ دے تو جبرا نہیں لے سکتے کیونکہ وہ اس کا مالک ہوگیا. اس لئے جب حیلہ شرعی کرنا ہو تو پہلے فقیر کے ہاتھ کوئی چیز ادھار بیچ دیں مثلا ٹوپی رومال کپڑا کتاب وغیرہ جیسے ایک لاکھ کا حیلہ کرنا ہے تو فقیر سے کہیں یہ کتاب میں ادھا ر ایک لاکھ میں بیچتا ہوں کیا آپ اپنی رضا سے خریدیں گے جب وہ منظور کرلے اسے کتاب دیدیں پھر مال زکوتہنکو اسے دے دیں کہ یہ مال زکوتہ ہے یہ لےلو جب وہ اس پر قبضہ جمالے تو اپنا ایک لاکھ قرضہ مانگ لے اگر نہ دے تو اب اپناقرض جبرا چھین سکتے ہیں شرعا کوئی قباحت نہیں.

                        طالب دعا

الفقیر تاج محمد حنفی قادری واحدی اترولوی






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney