امام سے پہلے سلام پھیرنا کیسا ہے؟

سوال نمبر 2376
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ. 
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام کے بارگاہ میں سوال عرض ہے کہ اگر مقتدی امام سے پہلے سلام پھیر دے تو کیا حکم ہے یا یاد آجانے پر پھر رک جائے اور امام کے ساتھ سلام پھیر دے تو کیا حکم ہے؟ جواب عنایت فرمائیں.
المستفتی :-  محمد گلبہار عالم رضوی اُتر دیناجپور بنگال۔
-----------------------------------------------------
     
بسم اللّٰه الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب؛ مقتدی کی اقتداء امام کے سلام اول کے لفظ السلام تک کہنے پر پوری ہوتی ہے، اور امام کی اتباع واجب ہے، اس لئے مقتدی کا امام سے پہلے قصداً بغیر کسی عذر کے سلام پھیرنا مکروہ تحریمی ہے اور ناجائز ہے، تاہم اس صورت میں بھی اس کی نماز جماعت سے ہی ادا ہوگی، اس نماز کا اعادہ ضروری نہیں، البتہ بے خیالی میں یا کسی عذر مثلاً وضو ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو تو امام سے پہلے سلام پھیرنے میں کراہت نہیں۔اور اگر سلام پھیرنے کا قصد کیا اور یاد آگیا (کہ امام سے پہلے سلام نہیں پھیرنا چاہیے) اور یاد آنے پر رک گیا اور امام کے ساتھ سلام پھیرا تو اس نماز بلاکراہت ہوگئی۔
           "ردالمحتار"میں ہے: (وأتمه الخ) أی لوأتم المؤتم التشھد، بأن أسرع فیه وفرغ منه قبل اتمام امامه فأتی بما یخرجه من الصلوٰۃ کسلام أو کلام أو قیام جاز؛ أی صحت صلاته لحصوله بعد تمام الأرکان، لأن الامام وأن لم یکن أتم التشھد لکنه قعد قدرہ، لأن المفروض من القعدۃ قدر أسرع مایکون من قرأۃ التشھد وقد حصل، وإنما کرہ للمؤتم ذلك لتركه متابعة الإمام بلاعذر، فلو به كخوف حدث أوخروج وقت جمعة أو مرور مار بىن يديه فلاكراهة۔“اھ۔
(ترجمہ؛ یعنی اگر مقتدی تشھد پورا کرلے، اس طرح کہ وہ اس میں جلدی کرے اور اپنے امام سے پہلے تشھد سے فارغ ہوجائے پھر بجالائے اس کو جس کی وجہ سے نماز سے باہر ہوجائے جیسے سلام یا کلام یا کھڑا ہوجائے تو جائز ہے، یعنی اس کی نماز صحیح ہوگئی اس کو تمام ارکان کے بعد حاصل کرنے کے سبب، اس لئے کہ امام نے اگرچہ تشھد مکمل نہیں کیا لیکن وہ تشھد کی مقدار بیٹھ چکا ہے،اس لئے کہ فرض قعدہ اتنی مقدار ہے کہ جلدی سے تشھد پڑھ لے اور یہ حاصل ہوچکا ہے، البتہ مقتدی کے لئے بلاعذر امام کی اتباع چھوڑنا مکروہ ہے، لیکن اگر کسی خوف مثلأ حدث یا جمعہ کے وقت کے نکلنے یا سامنے سے کسی کے گزرنے کا خوف ہو تو بلاکراہت جائز ہے۔) (كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ج 2، ص 240، ط دار عالم الكتب)۔
           "فتاویٰ تاتار خانیہ"میں ہے: وإن سلم المقتدي قبل الإمام وذهب، إن كان بعذر يجوز، وإن لم يكن بعذر يكره مخالفة الإمام۔“اھ۔
﴿ترجمہ: اور اگر مقتدی نے امام سے پہلے سلام پھیردیا اور چلا گیا، تو اگر کسی عذر کے سبب ہے تو جائز ہے ورنہ بغیر عذر امام کی مخالفت مکروہ ہے﴾ (كتاب الصلاة، الفصل:3، باب كيفية الصلاة، ج 2، ص 190، ط مكتبه زکریا بدیوبند)۔ والله تعالیٰ و رسوله أعلم بالصواب۔
کتبه:        وکیل احمد صدیقی نقشبندی پھلودی۔
خادم:       الجامعۃ الصدیقیه سوجا شریف باڑمیر راجستھان۔








ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney