سوال نمبر 230
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سوال کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کی شادی ٧ماہ قبل ہوئی اور منکوحہ کے ساتھ صرف ستائیس دن گزرنے کے بعدکسی غیر لڑکے سے تعلق کا پتہ چلااور ساتھ ہی شادی سے پہلے قاطع حمل بھی ہوا تھااس کا بھی پتہ زید کو ہو گیالڑکی کے والدین اس گناہ کو دھو دینے یعنی معاف کرنے کی گزارش کر رہے ہیں اور لڑکی اقبال جرم بھی نہیں کر رہی ہے جبکہ زید کے پاس فون رکارڈ ثبوت کے طور پر موجود ہے بس اسی وجہ سے منکوحہ کو رکھنے سے انکار کر رہا ہے زید ایسے حالت میں شریعت کا کیا حکم ہے ؟ جب کہ عورت اپنے شوہر سے محبت بھی کرتی ہے.
سائل حافظ محمد علاءالدین صاحب رضوی گوبند پور ہزاری باغ جھارکھنڈ
وعلیکم سلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب ھوالھادی الی الصواب صورت مسئولہ لڑکی پر زنا کا الزام.نہیں لگایا جا سکتا جب کہ گواہ بھی نہیں ہیں اور نہ لڑکی اقرار کر رہی ہے صرف لوگوں کے کہنے سے قابل قبول نہ ہوگا اور نہ ہی کال ریکارڈ قبول کیا جائے گا جب تک کہ چار گواہ چشم دید نہ ہوں. اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے لَوۡ لَا جَآءُوۡ عَلَیۡہِ بِاَرۡبَعَۃِ شُہَدَآءَ ۚ فَاِذۡ لَمۡ یَاۡتُوۡا بِالشُّہَدَآءِ فَاُولٰٓئِکَ عِنۡدَ اللّٰہِ ہُمُ الۡکٰذِبُوۡنَ ﴿سورہ نور ۱۳﴾
ترجمہ اس پر چار گواہ کیوں نہ لائے ، تو جب گواہ نہ لائے تو، وہی اللہ کے نزدیک جھوٹے ہیں،
زید کے قول کے مطابق اگر لڑکی بدکردار تھی یا زانیہ تھی توپہلے تحقیق کرلینی چاہئے لیکن اہسا نہ کیا تو اب خواہ مخواہ پریشان کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے اگر طلاق دیا تو طلاق واقع ہوجائے گی لیکن بروز حشر اس کا بھی حساب دینا ہوگا کیوں کہ زید کے پاس شرعی اعتبار کے گواہ نہیں ہیں پھر ایک بات یہ بھی ہے کہ زید اگر طلاق دیدے تو کیا یہ امید رکھتا ہے کہ دوسری بیوی متقیہ ملے گی؟ ہو سکتا ہے کہ وہ اس سے بھی بدکردار ملے اور ایسا نہیں کہ اس کے اندر صرف برائیاں ہوں بلکہ ہر عورت کے اندر کوئی نہ کوئی خوبی بھی ہوتی ہے تو اسکے خوبیوں کو بھی یاد کرنی چاہئے نہ کہ صرف برائیوں کو اس لئے زید کو چاہئے کہ اپنی بیوی سے محبت کرے اور حسن سلوک سے پیش آئے جب کہ وہ خود زید سے محبت کرتی ہے تو اس کو طلاق دین مناسب نہیں سرکار اعلی حضرت رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا کہ بیوی سخت کلامی کرتی ہے اور زید کو اور اس کی والدہ کو تنگ کرتی ہے، اور بے حرمتی کی باتیں کرتی ہے اور زید اس کی نافرمانی کی وجہ سے اپنی زوجہ کو طلاق شرعی دینا چاہتا ہے، تو ایسی عورت نافرمان کو طلاق دینا جائز ہے یا نہیں؟ تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا :حدیث صحیح میں ارشاد ہوا کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے بنائی گئی ہے ٹیڑھی ہی چلے گی اور اگر تو اس سے فائدہ لینا چاہےتو اسی حال پر اس سے نفع اٹھا اور سیدھی کرنا چاہے تو ٹوٹ جائے گی اور اس کا توڑنا اُسے طلاق دینا ہے (صحیح مسلم کتاب الرضاع الوصایۃ بالنساء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۷۵)
دوسری حدیث میں ارشاد ہوا کہ مسلمان عورت سے اچھا برتاؤ رکھو اگر تُمہیں اس کی ایک عادت ناپسند ہُوئی تو دوسری ہوگی. ( ایضاً صحیح مسلم کتاب الرضاع الوصایۃ بالنساء قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۷۵)
اور ﷲعزوجل فرماتا ہے عسٰی ان تکرھوا شیئا ویجعل اﷲفیہ خیراکثیرا۔ قریب ہے کہ تم ایک بات کو مکروہ جانو گے اور اﷲ عزوجل اس میں بہت بھلائی رکھے گا۔ ( القرآن الکریم ۲ /۲۱۶)
اور اگر عورت کو طلاق دے کر پھر کبھی نکاح نہ چاہے تو خیر، ورنہ کیا معلوم کہ دوسری اس سے بھی بُری ملے، اس لئے حتی الامکان عورت کے ساتھ نیک برتاؤ اور اس کی دلجوئی اور اُسے خوش کرکے اپنی اطاعت پر لانا اور اس کی کج خلقی پر صبر کرنا چاہئے، اور اصطلاح ناممکن ہوتو طلاق دے سکتا ہے، مگر ایک طلاق رجعی سے زیادہ دینا گناہ ہے. (فتاوی رضویہ جلد ۱۲/ص ۳۲۸/مترجم) واللہ تعالی اعلم بالصواب
کتبہ
الفقیر تــــاج محــمد حنفی قادری واحـدی اترولوی
0 تبصرے