اگر حرام آمدنی ہو تو کیا کرے

سوال نمبر 238

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
 سوال کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام درج ذیل مسٸلہ میں کہ ایک انسان نے حرام طریقوں سے روپے کماٸے اور اس سے مکان گاڑی بینک بیلینس جمع کر لیا لیکن اب وہ انسان توبہ واستغفار کر لیا ان چیزوں سے دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا اب وہ انسان اس حرام کی دولت سے بنی عمارت میں رہ سکتا ہے ؟
کیا وہ انسان حرام کماٸی سے خریدی ہوٸی گاڑی استعمال کرسکتا ہے؟
اس کے پاس جو اب بھی حرام کماٸی موجود ہے کیا وہ اسے استعمال کرسکتا ہے؟
کیا اس حرام کماٸی سے توبہ کرنے کے بعد اس سے اپنی اولاد کی پرورش کر سکتا ہے بینواتوجروا
ساٸل محمد عطاءاللہ ،سیتامڑھی


ِ


وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ
 الجواب بعون الملک الوہاب ھوالھادی الی الصواب اللہ تعالی بندہ مومن کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور حرام خوری سے محفوظ فرمائے اعلی حضرت عظیم البرکت رضی اللہ عنہ اسی طرح کا ایک سوا کیا گیا کہ ایک طوائف نے اپنی ناپاک کمائی حرام کاری کے روپیہ سے ایک مکان خریدکیا اور اس کو بنام چنداشخاص سپرد کرکے لکھ دیا کہ اس مکان کی آمدنی مسجد کے اصراف میں خرچ کی جائے اور ان کو اس کا اختیار بیع ورہن حاصل نہیں کیا ایسے مکان کی آمدنی اصراف اخراجاتِ مسجدمیں صرف کرنادرست وجائزہے۔ 
تو آپ نے جواب میں تحریر فرمایا ایسی اشیاء اکثر قرض سے خریدتے ہیں جب تو ظاہر کہ وہ مال حلال ہے ورنہ عام خریداریوں میں عقد ونقد مال حرام پرجمع نہیں ہوتا یعنی یہ نہیں ہوتا کہ حرام روپیہ دکھاکر کہیں اس کے عوض دے دو پھر وہی روپیہ قیمت میں دے دیں، ایسی صورت میں بھی روپے کی خباثت اس شے میں سرایت نہیں کرتی کماھو مذھب الامام الکرخی المفتی بہ (جیسا کہ امام کرخی کامذہب ہے کہ جس پر فتوٰی دیاگیا)ان صورتوں میں اُس مکان کی آمدنی مسجد میں صرف ہوسکتی ہے۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۳/ص۵۸۳/مترجم)
اس عبارت سے یہ ظاہر ہے کہ گھر گاڑی وغیرہ جو کچھ خریدا گیا ہے اسے استعمال میں لانا جائز ہے کیونکہ وہ بعینہ حرام روپیہ دکھا کر نہیں خریدا جاتا ہاں جو حرام روپیہ بچا ہوا ہے اس سے اپنے بچے کی پرورش نہیں کرسکتا اور نہ ہی اپنے استعمال میں لاسکتا ہے بلکہ اسے ان لوگوں کو دے دے جس سے لیا تھااور اگر وہ لوگ نہیں ہیں تو انکے وارثین کو دیدے اگر وہ بھی نہیں ہیں تو بلا ثواب کی نیت کے غریبوں میں تصدق کردے جیسا کہ سرکار اعلی حضرت رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں حرام روپیہ کسی کام میں لگانا اصلاً جائزنہیں، نیک کام ہو یا اور، سوا اس کے کہ جس سے لیا اُسے واپس دے یافقیروں پرتصدّق کرے۔ بغیر اس کے کوئی حیلہ اُس کے پاک کرنے کانہیں، اُسے خیرات کرکے جیساپاک مال پر ثواب ملتاہے اس کی امید رکھے تو سخت حرام ہے، بلکہ فقہاء نے کفرلکھاہے۔ ہاں وہ جو شرع نے حکم دیا کہ حقدار نہ ملے تو فقیر پرتصدّق کردے اس حکم کومانا تو اس پر ثواب کی امید کرسکتاہے (فتاوی رضویہ جلد ۲۳/ص ۵۸۱/مترجم) واللہ اعلم بالصواب
                     کتبہ

الفقیر تاج محمد حنفی قادری واحدی اترولوی 






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney