سوال نمبر 263
کیافرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ سلام کامسنون طریقہ کیاہے
سلام کرنےوالےیامجیب کےلئے کیاکلمات اورکہاں تک ہونے چاہئے
کیامغفرتہ کااضافہ کیاجاسکتاہےجیساکہ ابوداؤد شریف کی حدیث میں مذکور ہے
بینواتوجروا
الجواب ھوالموفق للحق والصواب
سلام کےکم سے کم کلمات السلام علیکم ہیں اورانتہاء السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ہےایسے ہی مجیب کے لئے کم سےکم وعلیکم السلام ہے اورانتہاء وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ ہےاس پر زیادت درست نہیں جیساکہ سرکاراعلی حضرت نےبھی یہی فرمایاکہ سلام کی حد جوہے وہ برکاتہ ہی تک ہے
اورتفسیرطبری میں ہے
فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها﴾ رَدُّ الْأَحْسَنِ أَنْ يَزِيدَ فَيَقُولُ: عَلَيْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، لِمَنْ قَالَ: سَلَامٌ عَلَيْكَ. فَإِنْ قَالَ: سَلَامٌ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، زِدْتَ فِي ردك: وبركاته. وهذا النِّهَايَةُ فَلَا مَزِيدَ.
مذکورہ عبارت میں وھذاالنیایۃ فلامزید سےظاہر وباہر ہے
نیز دوسری کئی حدیثیں اسی طرح سے منقول ہیں خوف تطویل مانع اسلئے صرف ایک پر اکتفاء کرتاہوں
، ٦- [عن عبدالله بن عباس:] جاء ثلاثةُ نفَرٍ إلى النَّبيِّ ﷺ فقال الأوَّلُ السَّلامُ عليكم فردَّ عليه النَّبيُّ ﷺ سلامٌ عليكم ورحمةُ اللهِ فجاء الثَّاني فقال السَّلامُ عليكم ورحمةُ اللهِ فردَّ عليه النَّبيُّ ﷺ سلامٌ عليكم ورحمةُ اللهِ وبركاتُه وجاء الثَّالثُ فقال السَّلامُ عليكم ورحمةُ اللهِ وبركاتُه فردَّ النَّبيُّ ﷺ وعليكم وأبو الفتى جالسٌ مع النَّبيِّ ﷺ فقال يا رسولَ اللهِ زِدْتَ فُلانًا وفُلانًا ولَمْ تزِدِ (ابني) شيئًا فقال رسولُ اللهِ ﷺ ما وجَدْنا له مَزيدًا فردَدْنا عليه ما قال،
الطبراني (٣٦٠ هـ)، المعجم الأوسط ٦/١١٢ • لم يرو هذا الحديث عن عكرمة إلا نافع أبوهرمزتفردبه عبدالسلام بن مطهر ولا يروى عن بن عباس إلا بهذا الإسناد
مذکورہ بالاحدیث شریف میں
ماوجدنالہ مزیدا
عدم اضافہ کامتقاضی ہے جو اہل علم پر مخفی نہیں سلام کے جواب سے متعلق سیدی سرکاراعلی حضرت فاضل بریلوی کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں "کم از کم السلام علیکم اوراس سے بہتر ورحمۃ اللہ ملانا اور سب سے بہتر وبرکاتہ شامل کرنا اور اس پر زیادت نہیں۔ پھرسلام کرنے والے نے جتنے الفاظ میں سلام کیا ہے جواب میں اتنے کا اعادہ تو ضرور ہے اور افضل یہ ہے کہ جواب میں زیادہ کہے۔ اس نے السلام علیکم کہا تویہ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ کہے۔اورا گر اس نے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہا تو یہ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کہے اوراگر اس نے وبرکاتہ تک کہا تویہ بھی اتنا ہی کہے کہ اس سے زیادت نہیں"
فتاوی رضویہ شریف جلد22ص76
رہاابوداود شریف کی روایت میں مغفرتہ کااضافہ تویادرہے اس میں ایک راوی مکحول نام کے ہیں جن پر کلام ہے حاشیہ ابوداؤد شریف ملاحظہ فرمائیں..............!!!!!
لھذاثابت ہوگیاکہ کہ سلام اوراسکے جواب میں برکاتہ پر اضافہ نہ کیاجائے
نیز اگر یہ رخصت رہے تویقیناتسلسل ودور لازم آئے گاجومجیب کےلئے بہرحال دشوارکن ثابت ہوگاسلام کرنے والے نے کئی الفاظ استعمال کئے مجیب کواس سے بہتر اورزائد کی زحمت اٹھانی ہوگی جوایک امر شاق ہوگا........!!!!
فدبروایااولی الابصار
ھذا ما ظهر لی والعلم عند اللہ
کتبہ
منظور احمد علوی ممبئی
0 تبصرے