کیا زکوۃ کا روپیہ مسجد مدرسہ میں صرف کر سکتے ہیں

سوال نمبر 276

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎۔
 کیا فرماتے ھیں مفتیان کرام اس بارے میں کہ محلے میں عربی تعلیم کیلئے مدرسہ کھلا ھے جس میں زیادہ تر بچے آسودہ گروہ کے ھیں جو خود صاحب حیثیت ھیں اور مدرسے کی امداد کرتے ھیں درحالانکہ کچھ بچے غریب بھی ھیں دریافت امر یہ ھیکہ 
کیا ایسے بچوں کی دینی تعلیم کیلئے مدرسہ کمیٹی کو صدقہ فطرہ زکوۃ کا پیسہ لینا اور بچوں پر خرچ کرنا جائز ھے ؟
جبکہ مدرسے کا خرچ ایک ماہ کا تقریبا چار یا پانچ ھزار روپیے ھے 
 (۲)کیا مسجد کے پیسے سے مسجد کیلئے زمین خریدی جا سکتی ھے؟  شرعی حکم سے آگاہ فرمائیں کرم ھوگا .
المستفتی محمد معین قریشی 
بزریا (7) قریش منڈی دموہ  
ایم پی



وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
 الجواب بعون الملک الوھاب
 دراصل مال زکوتہ غریبوں یتیموں مسکینوں کا حق ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے
 اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ  الۡعٰمِلِیۡنَ عَلَیۡہَا وَ الۡمُؤَلَّفَۃِ قُلُوۡبُہُمۡ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الۡغٰرِمِیۡنَ وَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ  اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ  عَلِیۡمٌ  حَکِیۡمٌ ﴿پارہ/۱۰/سورہ توبہ۶۰﴾
ترجمہ زکوٰة تو انہیں لوگوں کے لیے ہے محتاج اور نرے نادار اور جو اسے تحصیل کرکے لائیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اور گردنیں چھڑانے میں اور قرضداروں کو اور اللہ کی راہ میں اور مسافر کو ، یہ ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کا ، اور اللہ علم و حکمت والا ہے .
لہذا مسجد مدرسہ میں زکوتہ دینا جائز نہیں اور اگر کسی نے مسجد مدرسہ میں مال زکوتہ کو صرف کیا تو زکوتہ ادانہ ہوگی.
ہاں اگر مسلمانوں کی تعداد کم ہے یا مالی حالات سے کمزور ہیں کہ غیر زکوتہ کی رقم سے دین کا کام نہیں کرپارہے ہیں تو ایسی صورت میں مال زکوتہ کے اتنی رقم کو حیلہ کرکے مدرسہ یا مسجد میں لگا سکتے ہیں جس سے ضرورت پوری ہوسکے لیکن آج کل مکتب والے بھی مال زکوتہ کو حاصل کرتے ہیں جہاں صرف  لاکھ پچاس ہزار کی ضرورت ہوتی ہے ہر کوئی جانتا ہے کہ ہر ایک گاؤں میں کم سے کم پچاس ساٹھ گھر ہوتے ہیں فی گھر دو تین ہزار اگر دیں تو مکتب بڑے آسانی سے چل سکتا ہے اور بعض مدرسے تو ایسے ہیں کہ کئی کئی   لاکھ بینک بیلنس ہے وہ بھی مال زکوتہ کو جمع کر رکھتے ہیں یہ شرعا جائز نہیں ہے. کیونکہ حیلہ شرعی صرف انتہائی ضرورت کے وقت جائز قرار دیا گیا ہے اور  بغیر ضرورت کے حیلہ کر نا جا ئز نہیں ہے کہ اس میں فقراء اور مستحقِ زکوٰۃ لوگوں کا حق مارنا اور باطل کرنا ہے ۔جو کہ حرام ہے جیسا کہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ہے
 ’’ ھی مایتوصل بہ الی مقصود بطریق خفی ۔وھی عند العلماء علی اقسام بحسب الحامل علیھا ۔فان توصل بھا بطریق مباح الی ابطال حق او اثبات فھی حرام ‘‘
ترجمہ حیلہ یہ ہے کہ جائز طریقے سے کسی مقصود تک پہنچنا۔اور علماء کے نزدیک حیلہ کرنے والے کے اعتبار سے اس کی کئی اقسام ہیں : اگر جائز طریقے سے غیر کے حق کو باطل یا باطل چیز کو حاصل کرنے کے لئے کیا جائے حرام ہے ‘‘ [فتح الباری ،شرح صحیح بخاری ،ج:۱۲،ص:۴۰۴]
اور پروفیسر مفتی منیب الرحمن صاحب  لکھتے ہیں. ’’ اگر جائز طریقے سے کسی کا حق باطل کیاجائے یا کسی باطل کو حاصل کیا جائے تو یہ حیلہ حرام ہے[تفہیم المسائل ،ج:۲،ص:۱۷۵]۔ 
اگر چندہ کا روپیہ ہے تو جس مقصد کے لئے چندہ کیا گیا ہے اسی میں صرف کریں اور اگر تمام ضروریات کے لئے کیا گیا ہے یا دینے والے نے تمام ضروریات کے لئے دیا ہے تو جگہ خرید سکتے ہیں. واللہ اعلم با الصواب


کتبہ
الفقیر تاج محمد قادری واحدی

۱۱/شوال المکرم ۱۴۴۰ھ
۱۵/جون ۲۰۱۹ء بروز سنیچر






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney