باپ کا مال بیٹیوں پر تقسیم کرنا کیسا ؟

سوال نمبر 277

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎۔
کیافرماتے ھیں علماۓ دین ومفتیان شرع متین کہ
زید۔
بکر۔
ھندہ۔
(دوبھاٸ ایک بہن ) ھندہ شادی شدہ ھے والدین کے وصال کے بعد زید و بکر میں بٹوارہ ھوگیا۔کیا والدین کے وارث صرف بیٹے ھیں۔ بیٹیوں کوحصہ کیوں نہیں دیا جاتا ہے؟
براۓ کرم تحقیقی جواب عطا فرماٸیں ذرہ نوازی ھوگی؟
سائل :-محمدرجب علی قادری فیضی اترولوی ۔ 
٦ ذی القعدہ١٤٤٥ھ ١٠جولاٸ٢٠١٩ع بدھ




وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
 الجواب 
الهم هداية الحق والصواب 
 صورت مذکور میں شریعت نے ضرور بہنوں کا حصہ متعین فر مایا ہے اگر کوئی  شخص بہنوں  کو حصہ نہیں  دیتا ہے تو ظالم ہے اور جتنے دن وہ وراثت پر نا جائز قبضہ رکھے گا گنہگار ہوگا حدیث شریف میں آیا 
 من كانت له مظلمة لا حد من عرضة فليتحللہ منه اليوم قبل أن لا يكون دنيا درلادرهم  
کتاب المظالم والغصب ۲/۱۰۴
 اگر کسی نے اپنے دوسرے مسلمان بھائی کی عزت یا  کسی چیز پر زیادتی اور ظلم کیا تو قیامت سے پہلے آج ہی اس کی صفائی کرئے 
 اس لئے ضرور بہنوں کا حصہ ہے اور اس مال کے صرف کرنے والوں پر تاوانی گا 
 تنویر الا بصار ۱۰/۴۵۹میں ہے
  يبدأ من تركة الميت بتجهيزه ثم ديون التي لها مطالب من جهة العباد ثم وصيته ثم يقسم الباقى بين الورثة
 میت نے جو کچھ مال چھوڑا سب سے پہلے اس میں سے تجہیز و تکفین کی جائے گی پھر قرض ادا کیا جائے گا پھر ثلث مال سے وصیت کی تکمیل کی جائے گی پھر باقی تمام مال وارثوں میں تقسیم کردیا جائے گا 
اور ترکہ کی تعریف شامی کتاب الفرائض میں ۱۰/۴۵۹میں ہے 
 التركة فى الإصطلاح ما تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال 
یعنی میت جو مال چھوڑے اور اس میں کسی غیر کا حق متلعق نہ ہو وہ ترکہ ہے اس سے معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد میت نے جو جائداد منقولہ غیر منقولہ چھوڑی سب سے ہی تمام وارثوں کا حق متلعق ہو جا تا ہے 
اس لئے بہنوں  کو والدین کی جائداد سے تر کہ دینا ضروری ہے! 

ماخوذ فتاوی بحر العلوم جلد ششم ۴۷‌‌‌‌/۷۱

و اللہ ورسولہ اعلم بالصواب

محمد رضا امجدی






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney