آپ قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہدیہ کریں کلک کریں

وتر کی جماعت غیر رمضان میں کیوں نہیں

سوال نمبر 278

السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته
حضرت میرا سوال ہے کہ جیسے کہ ہم تراویح کے وقت وتر کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں اور وقت میں تنہا پڑھتے ہیں ایسا کیوں؟  حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں
سائل:- وصی اللہ فیضی 




وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب ھوالموفق للحق والصواب
وتر کی نماز جماعت سے رمضان شریف میں تراویح کی تبعیت میں پڑھی جاتی ہے چونکہ تراویح جماعت سے ہوتی ہے اس لئے وتر بھی جماعت سے پڑھی جائے گی یہی افضل ہےاور غیر رمضان میں تراویح ہوتی نہیں اس لئے وتر کی جماعت بھی نہیں کیونکہ تبعیت باقی نہیں  رہی!""""""!!!
اس میں فقہاء کےکئی اقوال ہیں چنانچہ
بہارشریعت میں ہے
 اگرعشا جماعت سے پڑھی اور تراویح تنہا تو وتر کی جماعت میں  شریک ہو سکتا ہے اور اگر عشا تنہا پڑھ لی اگرچہ تراویح باجماعت پڑھی تو وتر تنہا پڑھے۔
اور ردالمحتار میں ہے
رجح الکمال الجماعۃ بانہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کان اوتربھم ثم بین العذر فی تأخرہ مثل ماصنع فی التراویح فکما ان الجماعۃ فیھا سنۃ فکذلک الوتر بحر وفی شرح المنیۃ الصحیح ان الجماعۃ فیھا افضل الاان سنیتھا لیست کسنیۃ جماعۃ التراویح اھ قال الخیر الرملی وھذاالذی علیہ عامۃ الناس الیوم   اھ  وقواہ المحشی ایضا بانہ مقتضی مامرمن ان کل ماشرع بجماعۃ فالمسجد افضل فیہ اھ  مافی ردالمحتار اقول فی ھذہ التقویۃ عندی نظر ظاھرفانہ لوکان المراد ان ماجاز بجماعۃ فالمسجد افضل فیہ فممنوع فان کل نفل یجوز بجماعۃ مالم یکن علی سبیل التداعی مع ان الافضل فیہ البیت وفاقا وان کان المراد ماندب فیہ الشرع الی الجماعۃ فمسلم لکن ھذا اول المسئلۃ فالاستناد بہ صریح المصادرۃ فلیتأمل۔
ترجمہ
کمال نے اس بنا پر جماعت کو ترجیح دی ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے صحابہ کو وتر پڑھائے،پھرجماعت چھوڑنے پر وہی حکمت بیان کی جو نماز تراویح میں تھی تو وتر کاحکم تراویح والاہے جس طرح ان میں جماعت سنت ہے اسی طرح وتروں میں بھی، بحر، شرح المنیہ میں ہے کہ صحیح یہ ہے کہ جماعت وتروں میں افضل مگر اس سنیت تراویح کی جماعت کی طرح نہیں اھ  خیر رملی نے فرمایا اسی پر آج لوگوں کا عمل ہے اھ محشی نے بھی یہ کہتے ہوئے اس کی تائید کی گزشتہ اصول کاتقاضا بھی یہی ہے کہ ہروہ نماز جوجماعت کے ساتھ مشروع ہے وہ مسجد میں افضل ہے اھ
 بحوالہ فتاوی رضویہ
ج۷/ص۴۲/
اورعلامہ شامی نےقہستانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ جس شخص نے فرض جماعت کے ساتھ نہ پڑھے ہوں (بلکہ علیحدہ پڑھے ہوں) وہ وتر کی جماعت میں شریک نہیں ہوسکتا، لیکن یہ قول ضعیف ہے، صحیح یہ ہے کہ شریک ہوسکتا ہے، جیسا کہ علامہ طحطاوی نے درمختار کے حاشیہ میں تصریح کی ہے
ان تصریاحات کاماحصل یہ ہے کہ اگرعشاءکی نماز جماعت سے پڑھی ہے تو وتر کی جماعت افضل ہےضروری نہیں

ھذاماظہرلی والعلم عنداللہ
کتبه
منظوراحمد یارعـــلوی ممبئی



ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney