سوال نمبر 293
السلام علیکم و رحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ غیر انبیاء کے لئیے علیہ السلام کہنا کیسا ہے مدلل جواب عنایت فرمائیں
سائل: ابصار رضا پورنیہ بہار
وعلیکم السلام ور رحمة الله وبركاته
الجواب بعون الملک الوہاب
صورت مسئولہ میں
انبیاء علیہم السلام اور فرشتوں کے علاوہ کسی اور کے نام کیساتھ علیہ السلام اِسْتِقْلَالاً یا اِبْتدَاءً پڑھنا یا لکھنا شرعاً دُرُست نہیں ہے،
علمائےکرام نے اس (علیہ السلام) کو انبیاء و فرشتوں کے ساتھ خاص کیا ہے۔
البتہ انبیاء و فرشتوں کی تَبْعِیَّتْ میں سلام بھیجنا بلاشک و شبہ جائز ہے یعنی پہلے کسی نبی علیہ السلام یا کسی فرشتے کا ذکر ہوا تو اس کے بعد غیر نبی و غیر فرشتے کیساتھ سلام پڑھنا لکھنا جائز ہے جیسے حضرت ابوبکر علی نبینا و علیہ السلام (یعنی ہمارےنبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر سلام ہو) کہنا جائز ہے اور ابوبکر علیہ السلام درست نہیں ۔
چنانچہ
1-علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتےہیں :
وقال ابوحنیفة واصحابہ ومالک والشافعی والاکثرون انہ لایصلی علی غیرالانبیاء علیہم الصلوة والسلام استقلالافلایقال اللھم صل علی ال ابی بکر اوعلی ال عمر اوغیرھماولکن یصلی علیھم تبعا"
یعنی امام اعظم ابوحنیفہ اوران کے اصحاب ،امام مالک ،امام شافعی اور اکثرعلماء رحمۃ اللّٰہ علیہم نےفرمایا:
انبیاءعلیہم السلام کے غیر پر استقلالاً درود نہیں بھیجا جائے گا، پس یہ نہیں کہا جائے گا کہ "اللھم صل علی ال ابی بکر" یا "اللھم صل علی ال عمر" وغیرہ ،لیکن ان پر تابع کرکے درود بھیجا جائے گاـ
{عمدةالقاری شرح صحیح بخاری کتاب الزکوة جلد6صفحہ 55611بیروت}
اورغیرنبی وغیرفرشتےپر سلام اوردرودکاایک ہی حکم ہے
جیساکہ
مشھورشافعی بزرگ امام محی الدین نووی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے لکھا:
"قال الشیخ ابومحمدالجوینی من ائمة اصحابنا:السلام فی معنی الصلوة:
یعنی ہمارےاصحاب میں سےشیخ ابومحمد جوینی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ اس حکم میں سلام بھی صلاة کےحکم میں ہےـ
{شرح مسلم للنووی باب الدعالمن اتی بصدقتہ}
2-سیدی اعلحضرت امام احمدرضاخان رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتےہیں:
"صلوةوسلام بالاستقلال انبیاءوملائکہ علیہم السلام کےسواکسی کیلیےروانہیں،ہاں بہ تبعیت جائزجیسے اللھم صل وسلم علی سیدنا و مَولیٰنا محمد و علی ال سیدنا و مولیٰنا محمد اورصحابہ کرام رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم کیلیےرضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کہاجائےاوراولیاءوعلماء کو رحمۃ اللّٰہ تعالی علیہم یاقُدِّسَتْ اَسْرَارُھُمْ اوراگر (اولیاءوعلماءکیساتھ)رضی اللّٰہ تعالٰی عنہم کہےجب بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔
{فتاوی رضویہ جلد23صفحہ 390}
3-صدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃ اللّٰہ علیہ نےفرمایا:
"کسی کےنام کیساتھ علیہ السلام کہنایہ انبیاءوملائکہ علیہم السلام کیساتھ خاص ہےمثلا موسیٰ علیہ السلام ،جبریل علیہ السلام ۔نبی اورفرشتہ کےسواکسی دوسرےکےنام کیساتھ یوں نہ کہاجائے"۔
{بہارِشریعت جلد3صفحہ 465مکتبة المدینہ کراچی}
4-فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللّٰہ علیہ لکھتے ہیں:
یہ مسئلہ مختلف فیہ ہےجمھورعلماءکامذھب یہ کہ استقلالا و ابتداء نہیں جائز اوراتباعا جائزہے یعنی امام حسین علیہ السلام کہنا جائزنہیں ہے اور امام حسین علی نَبِیِّنَاوعلیہ السَّلامُ جائزہے
{فتاوی فیض الرسول جلد 1صفحہ 267}
والله اعلم ورسولہ اعلم باالصواب
کتبہ
محــــمد معصــوم رضا نوری
0 تبصرے