گونگے جانور کی قربانی کاکیاحکم ہے

سوال نمبر 301

سوال:ایک بکرا ہے جس کے اعضاءِ بدن تمام کے تمام صحیح سالم ہیں؛ مگر پیدائشی طور پر اس کی ابھی تک کسی نے کوئی آواز نہیں سنی ہے میرے خیال سے گونگا ہے؛
اس کی قربانی کے تعلق سے کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام ۔ کیا ایسے جانور کی قربانی کرنا شرعاً درست ہے کہ نہیں؟ اور اگر درست ھے تو کوئی کراہت تو نہیں؟  مکمل و مفصل جواب عنایت ۔ فرمائیں ۔ عین نوازش ھوگی۔ فقط والسلام




الجواب بعون الملک الوہاب؛
صورت مسؤلہ میں عرض یہ ھیکہ حضرات احناف کے نزدیک قربانی کے جانور میں جو عیوب ذکر کئے گئے ہیں ان میں (گونگا و بہرا)  عیوب میں شامل نہیں اور اس باب میں فقہائے کرام کی عبارت دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عیب جو جانور کے گوشت پر اثر انداز نہ ہو اور اس سے جانور کا جمال بھی بالکلیہ ختم نہ ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز و درست ہے 
اور عیب ایسا ہو کہ اس جانور کے گوشت پر اثر انداز ہو یا اس سے جانور کی منفعت یا جمال بالکلیہ ختم ہوجائے تو اس جانور کی قربانی درست نہیں 
اس تمہید کے پیش نظر بہراپن چونکہ عام طور جانور کے گوشت پر اثر انداز نہیں ہوتا اور اس سے جانور  کی منفعت مقصودہ پر بھی کوئی خاص اثر نہیں پڑتا لہذا فی نفسہ  بہرے جانور کی قربانی جائز ہے تاہم گونگے جانور کے تعلق سے تفصیل یہ ہے کہ چھوٹے جانور (بکرا بکری وغیرہ) میں گونگے جانور کی خواہ زبان یا نہ ہو دونوں صورتوں میں اس چھوٹے جانور کی قربانی جائز ہے اور بڑے جانور (گائے بیل وغیرہ) میں اس کی مکمل زبان نہ ہو یا زبان کا اکثر حصہ نہ ہوتو ایسے بڑے جانور کی قربانی درست نہیں اور اگر مکمل زبان ہو یا زبان کا اکثر حصہ ہو اور چارہ کھا سکتا ہو اگر چہ قوت گویا نہ ہو تو ایسے جانور کی قربانی جائز و درست ہے تا ہم مستحب یہ ھیکہ قربانی کے جانور میں کوئی عیب نہ ہو
فتاوی ھندیہ المعروف فتاوی عالمگیری 
جلد 5 ص 298)
نوٹ؛ 
صرف مذہب مالکی میں گونگے جانور کی قربانی جائز نہیں باقی مذاہب ثلثہ میں گونگے جانور کی قربانی جائز ہے 
عبداللہ بن محمد عبداللہ بن الخراشی المالکی لکھتے ہیں
و منھاالبکماء وھی فاقدۃ الصوت من غیر امر عاد ھ۱ 

واللہ اعلم بالصواب

کتبـــہ
حضرت علامہ ابوالصدف محمد صادق رضا صاحب






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney