جس نے گزشتہ واجب قربانی ادا نہیں کیا اس پر اعادے کاحکم

سوال نمبر 302

السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ زید مالک نصاب ہوکر کئی سالوں تک قربانی نہیں کیا تو کیا اس کا اعادہ واجب ہے کیا وہ قربانی ہی کرے گا یا اور کوئی صورت ہے ؟ 
سائل : حشمت علی واحدی





وعلیکم السلام و رحمۃ اللّٰہ و برکاتہ
 جواب
مالک نصاب نے چند سال کی قربانی نہیں کی تو اگر اس نے ہر سال کی قربانی کے لئے جانور خریدا تھا تو ان تمام جانوروں کا صدقہ کرے اور اگر جانور نہیں خریدا تھا تو اس پر لازم ہے کہ ہر سال کی قربانی کے بدلے ایک ایک بکری یا خصی کی قیمت ادا کرے اور قیمت ایسے خصی یا بکری کی دے جو فربہ ہو اور اس کی عمر کم از کم سال ہو جیسا کہ رد المحتار میں غایة البیان کے حوالے سے ہے کہ " إذا اوجب شاة بعينها او اشتراها ليضحى بها فمضت ايام النحر قبل ان يذبحها تصدق بها حية و لا ياكل من لحمها لانه انتقل الواجب من اراقة الدم الى التصدق و ان لم يوجب ولم يشتر وهو موسر و قد مضت ايامها تصدق بقيمة شاة تجزى للاضحية " اھ ( رد المحتار ج 6 ص 321 ) 
اور مالک نصاب ہونے باوجود اس نے قربانی نہ کی اور بعد میں تنگ دست یا فقیر ہوگیا تو بھی اس پر یک سالہ بکری یا خصی کی قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے یعنی وقت گزرنے کے بعد قربانی ساقط نہیں ہوگی در مختار میں ہے کہ " ولو تركت التضحية و مضت ايامها تصدق بها حية ناذر لمعينة و تصدق بقيمتها غنى شراها اولا لتعلقها بذمته بشرائها اولا فالمراد بالقيمة قيمة شاة تجزى فيها " اھ ( در مختار ج 6 ص 320 : کتاب الاضحیة ) اور فتاوی عالمگیری مع خانيه میں ہے کہ " لو لم يضح حتى مضت ايام النحر فاته الذبح ان كان من لم يضح غنيا ولم يوجب على نفسه شاة بعينها تصدق بقيمة شاة اشترى او لم يشتر كذا فى العتابية " اھ ملخصا ( فتاوی عالمگیری ج 5 ص 296 ) اور حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ " قربانی کے دن گزر گئے اور اس نے قربانی نہیں کی اور جانور یا اس کی قیمت کو صدقہ بھی نہیں کیا یہاں تک کہ دوسری بقرعید آ گئی اب یہ چاہتا ہے کہ سال گزشتہ کی قربانی کی قضاء اس سال کرے یہ نہیں ہوسکتا بلکہ اب بھی جانور یا اس کی قیمت صدقہ کرے " اھ ( بہار شریعت ج 3 ص 339 : قربانی کے جانور کا بیان ) 

واللہ اعلم باالصواب
کریم اللہ رضوی






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Created By SRRazmi Powered By SRMoney